کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس بیس لاکھ روپے ہیں اور اس پر سال بھی گذر چکا ہے، لیکن اس نے چالیس لاکھ کا ڈمپر خریدا ہے اور ادھار کا وقت ایک مہینہ ہے، تو کیا اس بیس لاکھ روپے میں زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ کے وجوب کے لئےضروری ہے کہ آدمی کےذمے بقدر نصاب یا اس سے زائد واجب الاداء قرض نہ ہو، البتہ اگر قرض لینے سے پہلے ہی زکوۃ واجب ہوچکی ہو، تو قرض لینے کے بعد زکوۃ ساقط نہیں ہوگی، لہذا صورت مسئولہ میں ڈمپر گاڑی خریدنے سے پہلے اگر زکوۃ واجب ہوچکی ہے تو زکوۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اور اگر گاڑی خریدنے سے پہلے زکوۃ واجب نہیں ہوئی تھی توان پیسوں میں زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔لمافي الدر المختار:
’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد‘‘.
وتحته في الرد:
’’قوله:(فارغ عن دين) بالجر صفة نصاب، وأطلقه فشمل الدين العارض كما يذكره الشارح ويأتي بيانه، وهذا إذا كان الدين في ذمته قبل وجوب الزكاة، فلو لحقه بعده لم تسقط الزكاة ؛لأنها ثبتت في ذمته فلا يسقطها ما لحق من الدين بعد ثبوتها جوهرة‘‘.(كتاب الزكوة، مطلب الفرق بين السبب والشرط والعلة: 208/2، رشيدية)
وفيه أيضا:
(نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة)دراهم(سبعة مثاقيل)‘‘.(كتاب الزكوة، باب زكاة المال:267/2، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/32