کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں پٹرول پمپ میں ہوں، ہمارے پٹرول پمپ پر 160 گاڑیوں کا کھاتہ ہے، ان میں سے بعض گاڑیوں والے ایسے ہیں جو 15، 20 لاکھ کے قرض دار ہیں، اور بہت سے گاڑیوں والے ایسے ہیں جن پر قرض نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو وہ اپنا قرض بہت جلد ادا کردیتے ہیں۔
اب ہم ڈیزل اس طرح بیچتے ہیں کہ جو لوگ قرض دار نہیں ہیں ان کو اسی ریٹ پر دیتے ہیں یعنی عام مارکیٹ ریٹ کے مطابق یا اس سے بھی کم، اور جو قرض دار ہیں انہیں عام مارکیٹ ریٹ سے دو، تین روپے اوپر دیتے ہیں، اور یہ بات قرض داروں کو معلوم نہیں ہوتی کہ ہم ان کو مارکیٹ ریٹ سے مہنگا دیتے ہیں، مثلاً آج ڈیزل کا ریٹ 210 ہے تو جو قرض دار ہیں ان کو 212 روپے فی لیٹر کے حساب سے دیتے ہیں۔
صورت مسئولہ میں چونکہ قرض دار کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پٹرول پمپ والے ہمیں مہنگا ڈیزل دے رہے ہیں، اس لئے اس طرح بیچنا جائز نہیں۔لما في الدر المختار :
’’وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام‘‘.(كتاب البيوع، فصل في القرض:413/7، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/59