کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے قران کے اوپر ہاتھ رکھ کے یہ کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب بھی میں نے یہ کام کیا تو میں دس روزے رکھوں گا تو کیا اس سے قسم ہوگی یا نہیں؟ اگر قسم ہوگی تو کلما والی یہ قسم ہے اگر اس نے ایک مرتبہ وہ کام کیا تو کیا وہ دس روزے رکھے گا اور قسم کا کفارہ بھی ادا کرے گا دوسری مرتبہ کرے گا پھر ایسا ہی کریگا اگر جب بھی وہ بار بار کرتا رہے تو کیا اسی طرح ہر مرتبہ قسم کا کفارہ بھی ادا کرے گا اور 10 روزے رکھے گا، تو اس کو کیا کرنا ہوگا اور کوئی ایسی صورت ہے کہ جس سے یہ کلما والی شرط یا اس کے قسم والی صورت ختم ہو جائے اور وہ آئندہ کے لیے اس سے بچ جائے۔
واضح رہے کہ قران پر محض ہاتھ رکھ کر کچھ کہہ دینے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کہ قسم کہ الفاظ پر زبان سے تلفظ نہ کیا جائے، صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے روزوں کو شرط کے ساتھ معلق کیا ہے اور تعلیق بالشرط کا حکم یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ کام کے کرنے پر نذر ختم ہوجائے گی اور دو باتوں کا اختیار ہوگا، چاہے تو نذر کو پورا کرلے یا قسم کا کفارہ دے۔لما في التنزيل:
«وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ».(سورة الحج.29)
وفي التنوير مع الدر:
’’(و) إن علقه(بما لم يرده كإن زنيت بفلانة)مثلا فحنثت(وفى)بنذره (أو كفر)ليمينه(على المذهب)لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة‘‘.(كتاب الايمان: في احكام النذر، 543/5: رشيدية)
وفيه ايضا:
’’ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب.... (وهو عبادة مقصودة)(ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)‘‘.(كتاب الايمان: في احكام النذر: 537/5: رشيدية)
وتحته في الرد:
’’إذا باشر الشرط يجب عليه المعلق أم لا ويظهر لي الوجوب لأن المنذور طاعة وقد علق وجوبها على شرط فإذا حصل الشرط لزمته وإن كان الشرط معصية يحرم فعلها لأن هذه الطاعة... إذا كان لا يريده يصير فيه معنى اليمين فيخير ‘‘۔(كتاب الايمان: في احكام النذر، 543/5: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/346