کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ دس محرم الحرام کو لوگ قبرستان جاتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی قبروں پر کھجور کی درخت کی سبز شاخیں رکھتے ہیں، اور قبر پر پیسے رکھتے ہیں، اسی طرح وہاں موجود بچوں پر مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ قبروں کی زیارت کرنا مستحب عمل ہے اور احا دیث میں اس کی ترغیب بھی آئی ہے، لیکن کسی دن کو مثلا دس محرم الحرام کو خاص اس کام کے لئے متعین کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح قبروں پر درخت کی شاخیں رکھنا اور گاڑھنا اگرچہ فی نفسہ ثابت ہے، لیکن عام طور پرعوام اس کو اس خیال سے رکھتے ہیں کہ اس ٹہنی سے ہمارے مردے کو عذاب نہیں ہوگا یا کم ہوگا تو یقینی طور سے اس کا اعتقاد درست نہیں، اسی طرح قبروں پر پیسے رکھنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ یہ ضیاع مال اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے، اور بچوں پر مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا اگر صدقہ کی نیت سے ہوتو یہ ممدوح اور باعث اجر ہے، لیکن یہ عمل قبرستان کے ساتھ یا دس محرم الحرام کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے، سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ دن ومکان کی تعیین کے بغیر جتنا ہوسکے اپنے مردوں کے لئے ایصال ثواب کرے، خواہ بدنی عبادات کے ذریعہ سے ہو یا تلاوت قرآن پاک کے ذریعہ سے ہو یا صدقہ وغیرہ کر کے ہو۔لما في التنزيل:
﴿ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾. (الإسراء: 27)
وفي صحيح المسلم:
عن ابن عباسرضی اللہ عنہما قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال:’’أما إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، أما أحدهما فكان يمشي بالنميمة، وأما الآخر فكان لا يستتر من بوله‘‘ قال: فدعا بعسيب رطب فشقه باثنين، ثم غرس على هذا واحد، وعلى هذا واحد، ثم قال: ’’لعله أن يخفف عنهما، ما لم ييبسا‘‘.(باب الدليل على نجاسة البول إلخ، رقم الحديث:677، ص:136، دارالسلام)
وفي الدر مع الرد:
’’وبزيارة القبور ولو للنساء للحديث(كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها)‘‘.
’’قوله:(وبزيارة القبور) أي: لا بأس بها، بل تندب كما في البحر عن المجتبى، فكان ينبغي التصريح به للأمر بها في الحديث المذكور كما في الإمداد، وتزار في كل أسبوع كما في مختارات النوازل. قال في شرح لباب المناسك: إلا أن الأفضل يوم الجمعة والسبت والاثنين والخميس‘‘.(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة: 177/3، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’الأصل أن كل من أتى بعبادة ما له جعل ثوابها لغيره‘‘.
’’قوله:(بعبادة ما) أي: سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء -عليهم الصلاة والسلام- والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر كما في الهندية‘‘.(كتاب الحج، باب الإحصار: 14/4، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/234