کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فوڈ پانڈا مختلف لوگوں کو مختلف برانڈز کے واؤچر دیتا ہے۔ جس سےان کو کھانا سستا ملتا ہے، اور اگر ہم اس سے کھانا منگوائیں تو وہ اس پر کمیشن رکھتے ہیں، مثلا: اگر ان کو وہ کھانا 300 کا پڑتا ہے، تو وہ ہمیں یہ کھانا 400 کا دیتے ہیں۔ کیا ہمارے لئے ان کا کھانا منگوانا جائز ہے؟ اور ہمیں اس کی معلومات نہیں ہے کہ وہ اتنے واؤچر کہاں سے لیتے ہیں؟ تو یہ عمل کرنا جائز ہے؟واؤچر لگانے کے بعدکھانا تقریباً %50سستا پڑتا ہے۔ برائے کرم جواب عنایت فرمائیں۔
وضاحت: یہ کہ جس آدمی کو واؤچر کی وجہ سے رعایت پر کھانا ملتا ہے، وہ اس کھانے کو نفع کے ساتھ آگے فروخت کرتا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق فوڈ پانڈا اپنے صارفین کو یہ پیشکش کرتا ہے کہ اگر کوئی صارف اپنے اکاؤنٹ سے جو فوڈ پانڈا ایپ پر مفت بنتی ہے، کسی دوست کوریفرنس بھیجیں اور وہ قبول کریں تو اس صارف کو ایک واؤچر(مخصوص رسید) ملتا ہے، جس کے ذریعہ اس صارف کوآئندہ فوڈ پانڈا سے کھانا منگوانے پرکچھ فیصد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے، اوریہ ڈسکاؤنٹ کمپنی کی تشہیرکی مد میں ملتا ہے، اور چونکہ ایک ہی اکاؤنٹ سے متعدد دوستوں کو ریفرنس بھیجا جاسکتا ہے، اس لئے کئی واؤچرز کا ملنا بھی کوئی بعید نہیں۔ اب کھانے کی ڈیلیوری مکمل ہوجانے کے بعد چونکہ اس کی ملکیت آجاتی ہے، اس لئےآگے اس کھانے کی باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پرخرید وفروخت کی جا سکتی ہے، اور اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔لمافي تنزيل العزيز:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا».(البقرۃ:275)
وفي البدائع:
’’وعلى هذا الخلاف حط بعض الثمن أنه جائز عندنا ويلتحق بأصل العقد والثمن هذا القدر من الابتداء حتى أن المبيع إذا كان دارا فالشفيع يأخذها بالشفعة بما بقي بعد الحط وعندهما هو هبة مبتدأة إلا أن قيام الدين عليه أو كونه قابلا لاستئناف العقد ليس بشرط لصحة الحط بلا خلاف بين أصحابنا‘‘.(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع: 276/7،رشيدية)
وفيه أيضا:
’’وأما بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل فنقول وبالله التوفيق: حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه؛ وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق، وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى...؛ لأن الملك مطلق للتصرف في الأصل‘‘.(كتاب الدعوى، فصل في حكم الملك والحق الثابت في المحل: 509/8، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/110