کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 905 ہجری میں ایک شخص سید محمد جونپوری (جونپور،انڈیا) نے دعوی مہدویت کیا اور فرقہ مہدویہ کی بنیاد رکھی۔ اس فرقہ کے لوگ آج بھی کراچی،حیدر آباد اور شہداد پور میں موجود ہیں۔یہ لوگ اپنے عقیدہ مہدویت کو عالیت کا درجہ دیتے ہیں اور جونپوری کو مہدی موعود نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ہماری کھنڈیلہ برادری کے کچھ لوگ فرقہ مہدویت سے جڑے ہوے ہیں اور پاکستان میں ان کے پیر ومرشد کا نام سید میران شہاب ید اللہی ہے جو مہدویت جان چھڑکنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ براہ مہر بانی آپ جونپوری کی مہدویت کی حقیقت سے آگاہ کریں اور احادیث صحیحہ صریحہ کی روشنی میں امام مہدی علیہ السلام کی اصل حقیقت سے روشناس فرما ئیں۔
(1)۔۔۔فرقہ مہدویہ کے بانی سید محمد جونپوری راہ راست سے بھٹکے ہو ئے انسان تھے، انہوں نے اپنے باطل عقائد کی نشر واشاعت اور اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہوے مہدی ہونے کا دعوی کیا،چنانچہ ۹۰۱ھ میں جب حج کے لیے گئے تھےتو وہاں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوکر اعلان کردیا کہ میری ذات وہی ہے جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیا ءسابقین علیہم السلام نے جس کی آمد کی خبر دی اور یہ کہا کہ مہدی آخرالزماں میری ذات ہے۔
نیز انہوں نے اپنی ان خرافات کو دین کا پیرایہ دینے کی خاطر اپنے والدین(والد کا حقیقی نام سید خان یا یوسف اور والدہ کا اصل نام آقا ملک)کے ناموں کو بدل کرعبد اللہ اور آمنہ مشہور کرایا۔
اور ایک موقع پر کہا کہ مجھے برابر اٹھارہ سال سےخداکا بلا واسطہ حکم ہو تارہاکہ مہدویت کا دعوی کر، میں ٹالتا رہا، اب مجھے حکم ہوا ہے اے سید محمد! مہدویت کا دعوی کرو، ورنہ تو ظالمان میں شامل کر دوں گا، اس لیے بصحت عقل وحواس دعوی کرتا ہوں کہ "انا مھدی مبین مراد اللہ"
اور اپنے جسم کا چمڑا دوانگلیوں سے پکڑ کر کہا کہ جو شخص اس ذات کی مہدویت کا منکر ہو وہ کافر بے دین ہے، اور یہ بھی کہا مجھے خدائے برتر سےبلا واسطہ احکام ملتے ہیں۔
نیز فرقہ مہدویہ کےلوگ جونپوری کو (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری انسا نیت سے افضل سمجھتے ہیں اور جونپوری کی مہدویت کے منکرکو کافر کہتے ہیں اور(نعوذ باللہ) احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تصدیق کے بغیر ناقص سمجھتے ہیں، اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جونپوری کی جو باتیں دین محمدی کے مخالف ہیں دراصل ان کی حیثیت ناسخ کی ہے۔
بہر صورت !یہ سب دعوے اور عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں اور ان کے کچھ عقائد اسلام کی حدود سے متجاوز ہیں جن کے باعث انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے ائمہ تلبیس از مولا نا رفیق دلاوری رحمہ اللہ اور احسن الفتاوی:۱۸۸/۱ میں ذکری فرقہ کا مطالعہ کیا جائے)
(2)۔۔۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ اولاد فاطمہ زہراءرضی اللہ عنہا سے ہوں گے، آپ کا قد و قامت قدرے دراز، بدن چست، رنگ کھلا ہوااور چہرہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہو گا، نیز آپ کے اخلاق پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری مشابہت رکھتے ہوں گے، آپ کا اسم مبارک محمد، والد کا نام عبد اللہ ہو گا، آپ کی زبان میں قدرے لکنت ہو گی،آپ کا علم لدنی (خداداد)ہوگا۔
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے متعلق صحیح صریح احادیث کی روشنی میں مزید تفصیل کے لیےحضرت مولا نا بدر عالم میرٹھی کی کتاب ترجمان السنہ:۳۵۹/۴ میں "الامام المھدی"
اور اسی طرح حضرت مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ کا رسالہ "عقیدہ ظہور مہدی” کا مطالعہ کیا جائے۔لما في نزهة الخواطر :
’’الشيخ الكبير محمد بن يوسف الحسيني الجونبوري المتمهدي المشهور بالهند، ولد سنة سبع وأربعين وثمانمائة بمدينة جونبور ‘‘.
وفيه أيضا :
’’وقال أبو رجاء محمد الشاه جهانبوري في الهدية المهدوية: إن الجونبوري لم يمنع أصحابه عن ذلك وبدل اسم أبيه بعبد الله واسم أمه بآمنة، وأشاعها في الناس، وصنف كتباً في أصول ذلك المذهب، ثم نقل أبو رجاء أصول ذلك المذهب في كتابه، واقتبس تلك الأصول عن كتبهم، منها أنه مهدي موعود،وأنه أفضل من أبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم، بل أنه أفضل من آدم ونوح وإبراهيم وموسى وعيسى على نبينا وعليهم السلام، ومنها أنه كان مساوياً لسيدنامحمد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنزلة وإن كان تابعاً له في الدين، ومنها أن ما خالف من الكتاب والسنة قوله وفعله فهو غيرصحيح، ومنها أن تأويل كلامه حرام وإن كان مخالفاً للعقل، ومنها أن الجونبوري وسيدنا محمداًصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كلاهما مسلمان كاملان وسائر الأنبياء ناقصو الإسلام، ومنها أن الإنسان إن لم يشاهد الأنوار الإلهية بالعين أو بالقلب في اليقظة أو في المنام فليس بمؤمن، ومنها أن الواجب على كل مسلم أن يهجر وطنه ويختار صحبة الصادقين بعد الهجرة، ومنها أن الجونبوري شريك في بعض الصفات الإلهية بعد فوزه بمنصب الرسالة والنبوة، انتهى بقدر الحاجة‘‘.(عنوان: 485 ،4/289: طيب اكادمي)
وفي أبي داود :
عن زر عن عبد الله عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال «لو لم يبق من الدنيا إلا يوم». قال زائدة فى حديثه «لطول الله ذلك اليوم». ثم اتفقوا «حتى يبعث رجلا منى». أو «من أهل بيتى يواطئ اسمه اسمى واسم أبيه اسم أبى». زاد فى حديث فطر «يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا». وقال فى حديث سفيان «لا تذهب أو لا تنقضى الدنيا حتى يملك العرب رجل من أهل بيتى يواطئ اسمه اسمى»‘‘. (رقم الحديث:4282، ص:845: دارالسلام )
وفيه أيضا:
’’عن أم سلمة قالت سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول « المهدى من عترتى من ولد فاطمة ». قال عبد الله بن جعفر وسمعت أبا المليح يثنى على على بن نفيل ويذكر منه صلاحا‘‘.(رقم الحديث:4284، ص:845: دارالسلام ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:185/346