کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب ایک علاقے میں مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجائے، تو اس جہاد میں کتنی مدت تک شریک ہونے سے فرض ادا ہوجاتاہے، آخری مرحلے شہادت یا فتح تک یا کسی خاص مدت کے لئے شریک ہوجانے سے فرض ادا ہوجاتاہے؟ جیسے مثلا: فلسطین میں ایک سال یا شام میں گیارہ سال سے مسلسل جہاد جاری ہے۔
یہ سوال اس علاقے کے رہنے والوں کے بارے میں بھی ہے، اور ہم جیسے دور دراز ممالک کے رہنے والوں کے بارے میں بھی ہے، برائے کرم دونوں کے لئے شرعی حکم مع دلیل بیان فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں جہاں جہاد فرض عین ہوگیا ہو اور حاکم وقت نے عمومی طور پر جہاد کا حکم دیا ہو، تواس صورت میں وہاں کے ہرعاقل بالغ مسلمان پر فتح یا شہادت تک کفار کے ساتھ قتال اور ضروریات قتال میں مشغول رہنا ضروری ہے، وقت کی کوئی تعیین نہیں ہے، چونکہ سب لوگوں کا بیک وقت جہاد میں شریک ہونے سے اقتصادی اور دیگر امور میں نقصان کا اندیشہ ہے، جب کے جہاد کو جاری رکھنے میں افراد اور اسلحہ کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے، اس لئے حاکم وقت کو چاہئے کہ حکمت عملی سے کام لے اور دشمن کے خلاف محاذ پرلڑنے کے لئے جتنی فوج کی ضرورت ہو اتنا ہی بھیجے، اور باقی لوگ سرکاری، جنگی،اپنے نجی یا دیگر اقتصادی امور میں مصروف عمل رہیں، البتہ ضرورت پڑنے پر حاکم وقت مدد کے لئےمزید دستے بھیجتا رہے اور اگر یہ حربہ بھی کارگر ثابت نہ ہو، تو پھروہاں کے ہرعاقل بالغ مرد وعورت پر جہاد میں نکلنا فرض ہوگا، نیز دور کے مسلمانوں پر اپنی وسعت کے مطابق ان کی مدد ضروری ہوگی۔لما في السير الكبير:
’’إذ لو افترض على كل مسلم بعينه،وهذا فرض غير موقت بوقت، لم يتفرغ أحد لشغل آخر من كسب أو تعلم.وبدون سائر الاشغال لا يتم أمر الجهاد أيضا‘‘.(باب الجهاد ما يسع منه وما لايسع: 132/1: دار الكتب العلمية بیروت)
وفي روح المعاني:
’’(ما استطعتم من قوة) أي:من كل ما يتقوى به في الحرب كائنا ما كان، ...وإنما ذكر هذا لأنه لم يكن له في بدر إستعداد تام،فنبهوا على أن النصر من غير إستعداد لا يتأتى في كل زمان،وعن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما تفسير القوة بأنواع الأسلحة.....(وما تنفقوا من شيء في سبيل الله)... ويدخل في ذلك النفقة في الإعداد السابق والجهاد دخولا أوليا‘‘.(سورةالأنفال:10 /166،172: مؤسسة الرسالة بیروت)
وفي التاتارخانية:
’’يجب أن يعلم أن الأمر بالقفال ينتهي بشيئين:بالإسلام، وبقبول الجزية‘‘.(كتاب السير، الفصل الرابع في بيان ما ينتهي به الأمر بالقتال: 23/7:فاروقية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/311