فجر کی سنتوں کے بعد قضاء نماز کا حکم

فجر کی سنتوں کے بعد قضاء نماز کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی سے عشاء کی نماز قضاء ہوئی تو کیا وہ آدمی اس قضاء شدہ نماز کو فجر کی سنتوں کے بعد یا سنتوں سے قبل پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

قضاء شدہ نمازاوقات مکروھہ یعنی غروب آفتاب، طلوع آفتاب اور استواء شمس کے علاوہ باقی سب اوقات میں جائز ہے، ھدایہ کی مذکورہ عبارات اس پر دال ہیں:
وفي الهداية شرح البداية:
’’لا تجوز الصلاة عند طلوع الشمس ولا عند قيامها في الظهيرة ولا عند غروبها لحديث عقبة بن عامر رضي الله عنه قال ثلاثة أوقات نهانا رسول الله عليه الصلاة والسلام أن نصلي فيها وأن نقبر فيها موتانا عند طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول‘‘.(کتاب الصلاة، فصل في الأوقات التي تكره فيها الصلاة :84/1)
وفيه أیضاً:
’’ويكره أن يتنفل بعد الفجر حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب لما روي أنه عليه الصلاة والسلام نهى عن ذلك ولا بأس بأن يصلي في هذين الوقتين الفوائت ويسجد للتلاوة ويصلي على الجنازة لأن الكراهة كانت لحق الفرض ليصير الوقت كالمشغول به لا لمعنى في الوقت فلم تظهر في حق الفرائض‘‘.(کتاب الصلاة، باب المواقیت:86/1)
اول عبارت سے معلوم ہوا کہ اوقات ثلاثہ میں نماز وقت کی وجہ سے مکروہ ہے، لہذا وہ کراہت عام ہے فرض بھی مکروہ ہے، نفل بھی، اداءً بھی اور قضاءً بھی۔
دوسری عبارت سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد اور وقت عصر شروع ہونے کے بعد نوافل تو مکروہ ہیں، لیکن قضاء نماز و فرائض وغیرہ مکروہ نہیں ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ سنت فجر اور فرض کے درمیان میں نہ پڑھے، کیونکہ سنت کا اتصال فرض سے مروی اور ضروری ہے، یا تو سنت فجر سے پہلے پڑھے یا فرضِ فجر کے بعد۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/168