فجر کی دوسری رکعت میں امام کو پانے والا پہلے سنت ادا کرے یا نہیں؟

فجر کی دوسری رکعت میں امام کو پانے والا پہلے سنت ادا کرے یا نہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فجر کی نماز کے لیے آتا ہے، امام صاحب دوسری رکعت میں ہوتے ہیں تو آیا یہ آنے والا شخص سنت مؤکدہ ادا کرے یا نہ کرے اور جماعت میں شریک ہوجائے؟
کیا کتب فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ آپ کی نظر سے گزرا  ہے کہ جب تک وہ آخری قعدہ کو پانے کی امید رکھتا ہے تو اس وقت تک سنت پڑھ سکتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر کوئی شخص فجر کی نماز پڑھنے کے  لیے آئے اور امام صاحب کو پہلی رکعت پڑھتے ہوئے دیکھے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سنت مؤکدہ ادا کرے، بعد میں جماعت میں شریک ہو، تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل کرسکے۔ نیز سنت ادا کرکے جماعت ملنے کی امید ہونے کے باوجود اس سنت کو ترک کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ فجر کی سنتوں کی بہت  تاکید آئی ہے۔
اور یہ بات بھی فتاوی کی کتابوں میں نظر سے گزری کہ اگر جماعت فجر کی ایک رکعت بلکہ عند المحققین تشہد بھی مل سکے تو علیحدہ ہوکر سنتیں ادا کرے پھر شامل ہوجائے۔
لما في الھدایۃ:
’’(ومن انتهى إلى الإمام في صلاة الفجر وهو لم يصل ركعتي الفجر، إن خشي أن تفوته ركعة ويدرك الأخرى يصلي ركعتي الفجر عند باب المسجد، ثم يدخل)؛ لأنه أمكنه الجمع بين الفضيلتين، (وإن خشي فوتها دخل مع الإمام).إلخ‘‘.(كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة: 326/1، دار الدقائق).
لما في الشامیۃ:
’’ولهذا لو كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البححر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير، أي: على سبيل الإصراربلا عذر‘‘.(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل: 545/2، رشيدية).
وفي الحلبي الكبير:
وروى مسلم عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها».(تتمة سنن الصلاة، فصل في النوافل:156/2، رشيدية).
وفي الدرالمختار:
’’وإذا خاف فوت ركعتي الفجر لاشتغاله بسنتها تركها لكون الجماعة أكمل وإلا بأن رجا إدراك ركعة في ظاهرالمذهب، وقيل: التشهد، واعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر. إلخ‘‘. (كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة: 616/2، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/209