غیر تقسیم شدہ گھر کا ہبہ اور گھر کا تبادلہ

غیر تقسیم شدہ گھر کا ہبہ اور گھر کا تبادلہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بیٹے کا کوٹھی میں چوتھائی حصہ تھا، جس کا اس وقت ریٹ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ چوتھائی حصے کا بنتا ہے۔2022سال کو ایک مکان والد صاحب نے Directly اولاد فیملی کو رجسٹری کروادیا جس میں بیٹا کا حصہ نہیں تھا، اور ایک مکان کا قبضہ اڑھائی مرلہ کا 2024 کو بیٹے کو دے دیا لیکن رجسٹری نہ کروایا، دونوں کی مالیت 86لاکھ والد صاحب نے طے کی اور کہا کہ کوٹھی سے حساب بیباق ہوگیا ہے، بیٹے نے بہنوئی کے سامنے کہا کہ پوتوں کو Directly مکان شہباز گارڈن کا ہبہ کیا ہےاور قبضہ بھی دے دیا ہے، اس میں بیٹے کا حصہ نہیں ہے، بیٹے نے خود فیملی کو ہبہ نہ کیا ہے، بہنوئی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ بیٹے کو ایک مکان اڑھائی مرلے کا قبضہ دینے کے بعد بیٹا چوتھائی حصہ کوٹھی کی رقم نقد یا جائیداد والد صاحب سے وصول کرسکتا ہےموجودہ ریٹ کے حساب سے، اور والد صاحب اپنی حیات میں بیٹے کے نام رجسٹری کروانے کا حق دار ہے، والد صاحب کے پاس رقم نقد دینے کے لئے کوٹھی کے علاوہ ذاتی جائیداد بھی ہے، اگر والد صاحب بیٹے کو جائیداد نہ دیں تو شریعت کا کیا حکم ہے؟
وضاحت: خلاصہ سوال یہ ہے کہ بیٹے کاٹھی میں چوتھائی حصہ ذاتی ہے، اور والد صاحب نے 2022ء کو ایک گھر بیٹے کی اولاد کو دیا ہے، دوسرا گھر 2024ء میں اس بیٹے کو دیا ہےاور حساب (کوٹھی کا) بیباق کرنا چاہ رہا ہے، جب کہ بیٹا یہ کہ رہا ہے کہ والد نے میرا ذاتی حصہ میرے اولاد کو بغیر میری تحریری و زبانی اجازت کے دیا ہے، تو کیا بیٹا والد صاحب سے اپنا ذاتی حصہ لینے کا حق دار ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں والد صاحب نے 2022ء کو جو مکان بیٹے کی اولاد کو بطور ہبہ کےجسٹری کروایا تھا، یہ ہبہ درست نہیں ہوا ہے، کیوں کہ یہ غیر تقسیم شدہ گھر کا ہبہ ہے، جب کہ ہبہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے حصے متعین کر کے دیئے جائیں، اور یہ گھر بدستور والد صاحب ہی کی ملکیت ہے، اور2024ءکو ڈھائی مرلے والا گھر جو بیٹے کو دیا ہے وہ بطور تبادلہ کے ہے، لہذا صورت مسئولہ میں والد صاحب پر اس گھر کی رقم منہا کرکے بقیہ چوتھائی حصہ کی رقم یا اس کے بقدر جائیداد بیٹے کو دینا چاہیے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(و لو سلمه شائعا لا يملكه فلا ينفذ تصرفه فيه) فيضمنه و ينفذ تصرف الواهب‘‘.(كتاب الهبة:576/8، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’(وهب إثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (و بقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة‘‘.(كتاب الهبة: 584/8، رشيدية)
وفي بدائع الصنائع:
’’ومنها أن يكون محوزا، فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم... ولأن القبض شرط جواز هذا العقد، والشيوع يمنع من القبض؛ لأن معنى القبض هو التمكن من التصرف في المقبوض، والتصرف في النصف الشائع وحده لا يتصور‘‘.(كتاب الهبة، فصل في شرائطها: 96/8، دارالكتب العلمية)
وفي فقه البيوع:
’’المقايضة: بيع العين بالعين،أي مبادلة مال بمال غير النقدين،وهذا مثل: أن يباع ثوب بثوب، أو أرض بأرض، أو حيوان بحيوان،كل واحد من البدلين في المقايضة يصلح أن يعتبر مبيعا أو ثمنا، وبما أن كل واحد منهما يصلح كونه مبيعا، فإنه يجب أن يكون كل واحد منهما متعينا عند عقد البيع‘‘.(التقسيم الثالث من حيث نوعية البدلين: 1137/22، معارف القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/208