غائبانہ نماز جنازہ کی شرعی حیثیت

غائبانہ نماز جنازہ کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جائز ہے کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی بادشاہ کا غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمایا تھا، کیا یہ قول صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔

جواب

امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے مذہب کے تمام علمائے عظام کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ہے، نیز امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
ذیل میں مذہب احناف رحمہ اللہ کے چند مشہور اور معتبر کتابوں کے حوالہ جات مع عبارت وصفحات ملاحظہ فرمائیے۔
۱…فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
’’ومن الشروط حضور الميت ووضعه وكونه أمام المصلي فلا تصح على غائب‘‘.(كتاب الصلوة: 225/1: دار الفكربیروت)
۲…درمختار میں ہے:
’’وشرطها أيضاحضوره (ووضعه) وكونه هو أو أكثر(أمام المصلي) وكونه للقبلة فلا تصح على غائب‘‘.(كتاب الصلوة، صلاة الجنازة: 123/3: رشيدية)
۳…فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں :
’’وشرط صحتها إسلام الميت وطهارته ووضعه أمام المصلي ، فلهذا القيد لا تجوز على غائب ولا حاضر محمول على دابة‘‘.( كتاب الصلوة: 120/2: حنفيه كوئته)
مذکورہ بالا تمام عبارتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحت نماز جنازہ کے لئے میت کامصلی (نمازی) کے سامنے حاضر ہونا شرط ہے، اس لئے غائب میت پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے، باقی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نجاشی پر نماز جنازہ پڑھنا یہ خصوصی واقعہ ہے کہ اللہ پاک نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ان کی میت کوسامنے کر دیا، تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی، بہر حال یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، جس سے امت کو استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔
مزیدتفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: (اعلاءالسنن: 283/8، مطبوعہ:ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/131