عورتوں کا تبلیغی جماعت میں نکلنے کا حکم

عورتوں کا تبلیغی جماعت میں نکلنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خواتین کا تبلیغی جماعت میں نکلنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عام حالات میں عورت کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی انجام دیتی رہے، بلا وجہ باہر نہ نکلے، اسی میں اس کی عزت اور وقار مضمر ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمارے مذہب میں گھر عورت کے لیے قید خانہ ہے کہ دینی تقاضا یا کسی ضرورت کی وجہ سے بھی باہر نہ جائے، ہر حالت میں گھر کے اندر ہی رہے، بلکہ شریعت نے جہاں اس کی نزاکت، کمزوری اور جالب النظر صفت کا لحاظ کرتے ہوئے گھر سے باہر اکثر ذمہ دار یوں سے فارغ کردیا، تو ساتھ ساتھ اس کے بشری تقاضوں اور دینی ضروریات کی بھی رعایت رکھی ہے، اور محدود موقعوں پر باہر جانے کی اجازت بھی دی ہے، چنانچہ کتب فقہ میں تصریح ہے کہ عورت علاج و معالجہ کے لیے، زیارت والدین اور محارم رشتہ داروں سے ملنے، علم دین، اور دیگر احکام شرعیہ کی بجا آوری کے لیے باہر جا سکتی ہے۔
آج معاشرے میں جب بے دینی عام ہے، نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی احکام زندگیوں سے نکلتے جا رہے ہیں، عورتوں میں بے پردگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، ان حالات میں دعوت وتبلیغی میں جانا انتہائی مفید اور ضروری ہے، اس کے اثرات مردوں اور عورتوں دونوں کی زندگیوں میں نمایاں ہیں۔
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ عورتوں کا دعوت وتبلیغ کے لیے نکلنا اگر درج ذیل شرائط کی رعایت کے ساتھ ہو تو جائز ہے:
1)شوہر یا محرم کے ساتھ سفر کریں۔
2)غیر محرم کے ساتھ اختلاط بالکل نہ ہو۔
3)شرعی پردے کا مکمل انتظام ہو۔
4)شوہر کی اجازت ہو۔
5)تبلیغ میں نکلنے سے گھریلو معاملات اور امور میں خلل نہ آجائے مثلاً تربیتِ اولاد  اور حقوق زوجین میں کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔
6)جس گھر میں جماعت قیام ہو وہاں پردے کا مکمل انتظام ہو۔
7)عورتیں زیب وزینت کرکے نہ جائیں۔
8)اعمال(تعلیم، بیان، مذاکرہ وغیرہ) میں آواز غیر محرم تک نہ پہنچے۔
لما في التنزيل العزيز:
[وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ].(آل عمران:104)
وفي أحكام القران:
’’قلت:والصحيح أنهن شقائق الرجال ويجب عليهن ما عليهم إلا ما خص بدليل ولم يوجد هنا،فالظاهروجوب ذلك عليهن فيما بينهن ،نعم لو قيل لايجب عليهن تعليم الرجال وتبليغ الأحكام إليهم لكونهن مامورات بالقرار في البيون وبالحجاب والتستر عنهم لكان له وجه،وقد ثبت أن عاءشة رضي الله عنها وغيرها من إزواج النبي صلى الله عليه وسلم كن يحدثن الرجال نم وراء الحجاب ...ولولافساد الزمان واستعجال للشر ومسابقتهم إلى الفتن لقلنا بوجوب التبليغ وإظهلر العلم على النساء كوجوبها على الرجال سواء‘‘.(ج: 98/1، إدارة القران)
وفي الهندية:
’’ولو أذن لها في الخروج في مجلس الوعظ الخالي عن البدع لا بأس به‘‘.(الباب السابع في النفقات: 557/1، رشيدية)
وفي النهر الفائق:
’’قال في (الفتح): وحيث أبحنا الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة على ما لا يكون داعية لنظر الرجال والاستمالة والله الموفق‘‘.(كتاب الطلاق، باب النفقة: 516/1، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/68