کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی انگوٹھے چومتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ انگوٹھا چومنا (جب آنحضرت ﷺ) کا نام آتا ہے، یہ حضرات علماء دیوبند سے بھی ثابت ہے، ازراہ کرم مندرجہ بالا مسئلہ کی ازروئے شرع وضاحت فرمائیں۔
اس عمل کی بناء ایک حدیث پر ہے، جس کے متعلق محدثین نے صراحت کی ہے کہ موضوع ہے، جیسا کہ علامہ حوت بیرونی نے اپنی کتاب اسنی المطالب
میں لکھا ہے کہ:’’حدیث مسح العینین بالسبابتین عند قول المؤذن أشہد أن لا إلہ اللہ الخ رواہ الدیلمی ولم یصح و بعضہم رواہ عن الخضر قال في الاصل عن شیخہ کل ذلک لم یصح‘‘. (حرف المیم، رقم الحدیث:1305، ص:254: دارالکتب العلمیۃ)
اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الفوائد المجموعۃ في الأحادیث الموضوعۃ
میں لکھا ہے کہ : ’’حدیث مسح العینین بباطن اعلی السبابتین عند قول المؤذن اشہد أن محمداً رسول اللہ الخ رواہ الدیلمی في مسند الفردوس عن ابی بکر مرفوعاً قال ابن طاھر في التذکرۃ لایصح ‘‘.
اور اسی قسم کی ایک دوسری حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ: ’’من قال حین یسمع أشھد أن محمداً رسول اللہ مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ ثم یقبل ابھامیہ و یجعلھما علی عینیہ لم یعم و لم یرمد ابداً قال في التذکرۃ لا یصح ‘‘.(کتاب الصلاۃ، رقم الحدیث:59،60: دارالکتب العلمیۃ).
اور اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ عبد الرحمن بن علی بن محمد بن عمر الشافعی اپنی کتاب تمییز الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث
میں لکھتے ہیں کہ: ’’قال شیخنا (یعني سخاوی رحمہ اللہ تعالی علیہ) ولا یصح واوردہ الشیخ احمد الرداد في کتابہ موجبات الرحمۃ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ عن الخضر الخ‘‘.(حرف المیم، ص:145: دارالکتب الغزالی)
اسی طرح علامہ سخاوی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے مقاصد حسنہ میں لکھا ہے کہ: ’’لایصح‘‘. (حرف المیم، رقم الحدیث:1019، ص:440: دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ملا علی قاری نے سخاوی سے جو لایصح
رفعہ
نقل کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ مقاصد حسنہ میں صرف لا یصح
ہے رفعہ
کا لفظ اس حدیث میں اس کے ساتھ نہیں ہے اور لایصح
کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صحیح تو نہیں ہے، البتہ حسن یا ضعیف ہوگی، جو فضائل میں کار آمد ہو، بلکہ یہ لا یصح
بمعنی موضوع کے ہے۔ جیسے علامہ عبد الفتاح ابو غدہ نے المصنوع في معرفۃ حدیث الموضوع
کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ: ’’لا یصح او لا یثبت او لم یصح او لم یثبت او لیس بصحیح او لیس بثابت او غیر ثابت او لایثبت فیہ شیئ ونحو ھذہ التعابیر اذا قالوہ في کتب الضعفاء او الموضوعات فالمراد بہ ان الحدیث المذکور موضوع الخ‘‘.(ص:52، ایچ.ایم.سعید)
(وکذا قال الشیخ الکوثری رحمہ اللہ تعالی علیہ في مقدمۃ انتقاد الغنی عن الحفظ و الکتاب ـ ص:11)
ان سب عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موضوعات کی کتابوں میں جب لایصح
کہا جاتا ہے، تو وہ بمعنی موضوع کے ہوتا ہے اور مذکورہ حدیث کے متعلق بھی محدثین نے بالاجماع لا یصح
کہا ہے، لہذا اس مسئلہ کی بناء جس حدیث پر تھی، وہ موضوع ہے، تو خود بہ خود ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل باطل اور بدعت ہے، علماء دیوبند سے اس عمل کا ثبوت بالکل نہیں ہے اور اگر بالفرض ثابت بھی ہو تو شریعت میں کسی فرد کا عمل حجت نہیں ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:03/78