عقیقے کا طریقہ اور ایک جانور میں کتنے عقیقے ہوسکتے ہیں؟

عقیقے کا طریقہ اور ایک جانور میں کتنے عقیقے ہوسکتے ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عام دنوں  میں یعنی عیدین کے علاوہ دوسرے کسی وقت اگر ہم بچوں کے عقیقے کرتے ہیں، تو اس میں کتنے نام دے سکتے ہیں، گائے میں کتنے نام اور بکرے میں کتنے نا م، نیز شرعا بچوں کے عقیقہ کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

بچوں کے عقیقہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی طرف سے ایک بکرا ذبح کیا جائے اور ساتویں روز نام رکھا جائے، اگر لڑکے کی طرف سے ایک بکرا ذبح کیا گیا تو بھی جائز ہے، عقیقہ ہو جائے گا مگر افضل صورت وہی ہے جو ذکر کی گئی، نیز اگر بھیڑ ذبح کیا جائے  یا گائے میں حصہ لیا جائے تو بھی عقیقہ ہو جائے گا۔ عقیقہ میں بھی ایک گائے میں سات حصے ہو سکتے ہیں اور بکرے میں ایک عقیقہ ہوگا۔
لما في السنن الکبریٰ:
" أخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن عبد الأعلى قال: حدثنا يزيد وهو ابن زريع عن سعيد، قال: حدثنا قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌كل ‌غلام ‌رهين بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه، ويحلق رأسه ويسمى."(السنن الكبري للنسائي: كتاب العقيقة [رقم الحديث:4532]، 372/4: مؤسسة الرسالة)
لما في الدر المختار:
’’[تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد أيضاً؛ لأن نصيبه شائع، كما في الخانية. وظاهره عدم جواز الأكل منها، تأمل. وشمل ما لو كانت القربة واجبةً على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا، كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافاً لزفر؛ لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد."(الدر المختار:326/6).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/86