عقیقہ کی شرعی حیثیت

عقیقہ کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عقیقہ کی وجہ اور اس کا شرعی حکم، نیز عقیقہ نہ کرنےکا کیا حکم ہے؟ تفصیل سے قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل تحریر فرمائیں۔

جواب

مذہب حنفی میں عقیقہ مسنون ومستحب ہے، (رواجی نہیں) اسلامی طریقہ ہے، مالا بد منہ میں ہے:
’’بدانکہ عقیقہ نزد امام مالک و شافعی واحمد رحمہم اللہ تعالی سنت مؤکدہ است وہروایتے از امام احمد رحمہ اللہ تعالی واجب ونزد امام اعظم رحمہ اللہ تعالی مستحب‘‘.(ضمیمہ مالابد منہ، ص:178)
(یعنی) جان لو کہ عقیقہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی کی ایک روایت وجوب کی بھی ہے، اور امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک مستحب ہے۔
بچہ پیدا ہونے کی خوشی میں شکریہ کے طور پر نیز آفات وامراض سے حفاظت کے لیے ساتویں دن (یعنی بچہ جمعہ کو پیدا ہو تو جمعرات کو اور جمعرات کو پیدا ہو تو بدھ کو) لڑکی کے لیے ایک بکرا ذبح کیا جائے اور بچہ کا سر منڈوا کر بال کے ہم وزن چاندی غریبوں کو صدقہ کردے، اور لڑکے کے سر پر زعفران لگائے، یہ تمام باتیں مستحب ہیں، حدیث سے ثابت ہیں اور امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کا قول یہ ہے کہ:’’اذا صح الحدیث فھو مذھبي‘‘  اس قاعدہ کے تحت ہمارا مذہب یعنی احناف کا راجح مذہب ہی ہوگا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
عن سمرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’الغلام مرتھن بعقیقۃ یذبح عنہ یوم السابع ویسمیٰ ویحلق رأسہ‘‘.(ترمذی شریف:219/1)
ترجمہ: بچہ اپنے عقیقے کے بدلہ میں مرہون ہوتا ہے، لہذا ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اور اس کا نام طے کیا جائے، نیز اس کا سر منڈوایا جائےمرہون کے بہت سے مطلب بیان کیے گئے ہیں، مثلا: احادیث میں آتا ہے:
(۱) بچہ ماں باپ کے لیے سفارش کرے گا اور وہ ان کا شفیع ہوگا، لیکن اگر حیثیت کے باوجود عقیقہ نہیں کیا، اور بچپن ہی میں بچہ کا انتقال ہوگیا تو ماں باپ کے لیے شفاعت نہیں کرے گا۔
(۲) عقیقہ کے بغیر بچہ سلامتی نیز خیر وبرکات سے محروم رہتا ہے، یعنی جب تک عقیقہ نہ ہو مرض کے قریب اور محافظت سے دور رہتا ہے۔
(۳) عقیقہ کے بغیر بچہ اذی یعنی پلیدی میں مبتلا اور صفائی سے دور رہتا ہے، جیسے حضرت رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: «مع الغلام عقيقة، فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى».(صحيح البخاري: 822/2)
نیز حدیث شریف میں ہے:’’عن علي بن أبي طالب قال: عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن بشاة وقال يا فاطمة: أحلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضة، قال:فوزنته فكان وزنه درهما أو بعض درهم الخ‘‘.(ترمذی شریف: 218/1)
عن أم كرز رضی اللہ تعالی عھنا قالت: سمعت يقول: «عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة لا يضركم أذكرانا كن أم إناثا».(أبو داود شریف:36/2)
اور یہ بھی معلوم کرلینا چاہیے کہ عقیقہ کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ساتویں روز ذبح کیا جائے، جیسا کہ اس فتوی کی شروع میں آیا ہے اور اگر ساتویں روز نہ ہو، تو چودہویں روز یا اکیسویں روز، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: کہ عقیقہ کے جانور کو ساتویں روز ذبح کیا جائے، یا چودہویں روز یا اکیسویں روز۔ (طبرانی).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/143