عذر کی وجہ سے روزے چھوڑنا اور بعد میں ان روزوں کا حکم

عذر کی وجہ سے روزے چھوڑنا اور بعد میں ان روزوں کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک لڑکی ہے، جس کی عمر تقریباً 22 سال ہے، وہ اگر رمضان المبارک میں روزے رکھتی ہے، تقریباً چار پانچ روزوں کے بعد اس کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، جسم کپکپاتا ہے، جھٹکے لگتے ہیں اور ہلکی بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے، جب بھی روزے رکھتی ہے، چار پانچ روزوں کے بعد یہ حالت ہوجاتی ہے، گزشتہ تین چارسالوں سے یہ مسئلہ ہوتا آرہا ہے، تو کیا ایسی صورت میں فدیہ دینا پڑے گایا بعد میں قضاء بھی ضروری ہوگی؟ تفصیلاً رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مرض دائمی نہیں ہے تو جب جب لڑکی کی طبیعت خراب ہو، تو ان کےلئے روزہ توڑنے کی گنجائش ہوگی، جس کی بعد میں قضاء کرنا لازم ہے۔
اور اگر  مرض دائمی ہے اور ان کو پوری زندگی میں اس قدر صحتیابی  نہ مل سکی کہ جس میں وہ اپنے روزوں کی قضاء کرسکیں، تو ان کو چاہئے کہ یہ وصیت کرجائیں کی میرے ذمے اتنے فوت شدہ روزے ہیں، جن کی میں قضاء نہیں کرسکی؛ لہٰذا ا ٓپ(ورثاء) ان روزوں کافدیہ ادا کردینا، بعد میں ورثاء کو چاہئے کہ ان کے مال کے ایک تہائی میں سے ان کی وصیت کے مطابق فدیہ ادا کردیں۔
لما في التنزيل:
﴿فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر﴾(سورة البقرة:184)
وفي البدائع:
’’لأن الأصل في العبادة المؤقتة إذا فاتت عن وقتها أن تقضى‘‘.(كتاب الصوم، فصل في حكم الصوم المؤقت:625/2، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’وأما بيان شرائط وجوبه فمنها :القدرة على القضاء حتى لو فاته صوم رمضان بعذر المرض أو السفر، ولم يزل مريضا أو مسافرا حتى مات -لقي الله ولا قضاء عليه ؛لأنه مات قبل وجوب القضاء عليه، لكنه إن أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته ،وإن لم يجب عليه ويطعم عنه من ثلث ماله ... فإن برأ المريض أو قدم المسافر وأدرك من الوقت بقدر ما فاته،يلزمه قضاء جميع ما أدرك ؛لأنه قدر على القضاء لزوال العذر، فإن لم يصم حتى أدركه الموت-  فعليه أن يوصي بالفدية، وهي أن يطعم عنه لكل يوم مسكينا‘‘.(كتاب الصوم، فصل في حكم الصوم المؤقت:625/2، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/312