کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کا نکاح آج سے پانچ سال پہلے ہوا، اس کے بعد ابتدائی تین ماہ تک لڑکی آباد رہی، بعد میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان ناچاقی پیدا ہوگئی، لڑکا ناجائز مار پیٹ کرتا تھا، اس لئے لڑکی اپنے والدین کے گھر آگئی، لڑکی کے والدین نے بارہا لڑکے کو کہا کہ لڑکی کو لے جائیں، لیکن وہ نہیں لے جاتا تھا، اس کے بعد اتنے طویل عرصے لڑکی والدین کے گھر ہی رہی، نہ تو لڑکا اس کو اپنے گھر لے گیا اور نہ ہی اتنے عرصہ کا خرچہ ادا کیا، اس صورت حال کے پیش نظر لڑکی نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعوی دائر کردیا، عدالت نے لڑکی سے گواہ طلب کئے، گواہوں نے بھی لڑکی کے حق میں گواہی دی اور لڑکے کے ناروا ظلم کو/جور کو بیان کیا، اس کے بعد عدالت نے لڑکی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے طلاق دیدی، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا عدالت کا فیصلہ شرعا قابل عمل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو لڑکی کی عدت عدالت کے فیصلے کے دن سے شروع ہوگی اور لڑکی دوسرا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
بصورت مسئولہ جب خاوند ظلم و جور کرتا ہے، نہ بلاتا ہے اور نہ طلاق دیتا ہے، مارپیٹ کرتا ہے، نان ونفقہ وحقوق زوجیت ادا نہیں کرتا ہے اور صلح کی کوئی امید نہیں ہے اور لڑکی نے یہ ساری چیزیں گواہی سے عدالت میں ثابت کی ہیں، تو عدالت کا فیصلہ صحیح ہے، شرعا یہ لڑکی کسی اور جگہ بعد از عدت نکاح کرسکتی ہے، تنسیخ عدالت کے بعد سے عدت شروع ہوگی۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/120