کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے یہ لفظ بولے ہیں کہ :"اگر میں آئندہ اپنی بہنوں (ہمشیرہ) سے بات چیت کروں گا تو مجھ پر میری بیوی طلاق ہوجائے گی”۔
اگر اب وہ اپنی بہنوں (ہمشیرہ) سےبات کرے، تو طلاق کی کیا صورت اور کونسی طلاق واقع ہوگی؟ اور اس کا رجوع کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ آپ سے گزارش ہے کہ رجوع کرنے کا معاملہ کار تفصیل سے لکھ دیں۔
صورت مسئولہ میں محمد ثاقب کے اس جملے :"اگر میں آئندہ اپنی بہنوں (ہمشیرہ)سے بات چیت کروں گا تو مجھ پرمیری بیوی طلاق ہوجائے گی” کی وجہ سے،محمد ثاقب کے اپنی بہنوں سے بات کرنے سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی۔
تاہم اس کے بعد رجوع کرنا چاہے تو عدت کے اندر اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ چھولےیا یہ کہہ دے "میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا” تو اس سے رجوع ثابت ہوجائے گا، یاد رہے اس کے بعد محمد ثاقب کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔لما في الهندية:
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق".(كتاب الطلاق، الفصل الثاني في تعليق الطلاق، 388/1:دارالفكر)
وفي بدائع الصنائع:
"أما الأول: فلأن اليمين بالطلاق والعتاق هو تعليق الطلاق والعتاق بالشرط، ومعنى تعليقهما بالشرط،وهو إيقاع الطلاق والعتاق في زمان ما بعد الشرط لا يعقل له معنى آخر، فإذا وجد ركن الايقاع مع شرائطه لا بد من الوقوع عند الشرط".(كتاب الأيمان، فصل في حكم هذه اليمين، 7/4: البشرى)
وفي المحيط البرهاني:
"إذا أراد الزوج أن يرجع امرأته فالأحسن أن يراجعها بالقول لا بالفعل؛ لأنّ صحّة المراجعة بالقول متفق عليها، وصحّة المراجعة بالفعل مختلف فيها، ويستحب أن يُعلمها بالرجعة، وإن لم تعلم جازت الرجعة عندنا استدامة للعلم وليست".(كتاب الطلاق، الفصل الثاني والعشرون في مسائل الرجعة، 603/3: الغفارية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/91