کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو 22اگست2024 کو پہلی طلاق دی اور شام کو رجوع کر لیا۔تقریبا ایک ماہ بعد 19 ستمبر 2024 کو جھگڑا ہوا تو پھر بیوی کو تین مرتبہ کہا کہ: تو مجھ پر حرام ہے، شوہر کا کہنا ہے کہ اس کے متعلق جب میں نے ایک عالم دین سے پو چھا: تو انہوں نے کہا کہ طلاق ہو گئی ہے، اس وجہ سے میں نے تسلیم کر کے علیحدگی اختیار کرلی، اگلے دن جب سسرال والے اس کی بیوی کو لینے آئے تو دو بچے ماں کے ساتھ جانے لگے اور ایک بچہ میرے پاس رک گیا، اور میں نے بیوی کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر بچے کو ساتھ لے کر گئی تو تیسری طلاق بھی دوں گا، اس کے باوجود وہ اس کو لے کر چلے گئے، تو میں نے کہا اب تیسری بھی دیتا ہوں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں بیوی کو تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، اورشوہر پر طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، لہذا حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع ممکن اور نہ ہی تجدید نکاح۔لما في التنزيل:
﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾.(البقره :230)
وفي الهداية:
’’إذا نوى بها الطلاق: كانت واحدة بائنة ،وإن نوى ثلاثا :كانت ثلاثا: وإن نوى ثنتين: كانت واحدة بائنة ،وهذا مثل قوله :أنت بائن ،وبتة ،وبتلة، وحرام‘‘.(كتاب الطلاق :باب في كنايات الطلاق:192 :دارالسراج)
وفي بدائع الصنائع:
’’القسم الثاني: فخمسة ألفاظ أيضا: خلية، بريئة، بتة، بائن، حرام: لأن هذه الالفاظ كما تصلح للطلاق تصلح، للشتم فإن الرجل يقول لامرأته عند إرادة الشتم، أنت خلية من الخير، بريئة من الاسلام، بائن من الدين، بتة من المروءة، حرام أي مستخبث، أوحرام الاجتماع والعشرة معك، وحال الغضب والخصومة يصلح للشتم، ويصلح للطلاق ،.... لإن الحال لا يصلح إلا للطلاق لإن هذه الالفاظ لاتصلح للتبعيد، والحال لا يصلح للشتم، فيدل على إرادة الطلاق، لا التبعيد ولا الشتم ،فترجحت جنبة الطلاق بدلالة الحال‘‘.(كتاب الطلاق: فصل في الكناية في الطلاق: 240/4: رشيديه)
وفي النهرالفائق:
’’(حرام)من حرام الشئ بالضم حراما، امتنع أريد به هنا الوصف، ومعناه الممنوع.... وقوع البائن به بلا نية في زماننا للتعارف،...ولو قال مرتين ونوى بالأول واحدة وبالثانية ثلاثا صحت نيته عند الأمام وعليه الفتوى وكذا في البزازية‘‘.(كتاب الطلاق، باب في الكناية: 359/2: رشيديه).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/41