کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے گھر میں میرے شوہر اور اس کے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہوا تھا، وہ اس لیے ہوا تھا کہ میراجو شوہر تھا، وہ نشہ کرتا تھا، پہلے بھی دو بارعلاج کرایا، یہ تیسری دفعہ تھی اور دو ڈھائی مہینہ کوئی کام نہیں کیا، تو اس دن صبح سے لیکر دن چار بجے تک بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا، تو اس کے بھائی نے بولا کہ: تم ہر ٹائم خود کو سنوارتے، سجاتے ہو کوئی کام کرو، بچے بھوک سےمر رہے ہیں، تو اس نے اپنے بھائی کوبہت گالیاں دیں، پھر گھر سے باہر گیا، پھر میرے دیور نے مجھے بولا کہ تم اپنے امی ابو کے گھر تھی تو کیوں آئی، تو میں نے بولا کہ تمہارے گھر والوں کی وجہ سے آئی ہوں، وہ باربار بول رہے تھے، اتنے میں وہ باہر سے آیا اور بولا: میرے گھر سے نکل کر جاؤ، مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں بچوں کو لیکر گھر سے باہر نکلی تو وہ بھی باہر آیا اور بولا: میرے بچوں کو چھوڑ کر جاؤ بس تم جاؤ۔ اس سارے جھگڑے میں اس کےوالدین گھر میں موجود نہیں تھے، وہ کراچی سے حب چوکی گئے تھے، وہاں سے نکلے تھے راستے میں تھے اتنے میں جب وہ گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں خیر نہیں ہے، تو انہوں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ تو اس نے اپنی امی کی آواز سنی تو باہر آیا اور مجھے گالیاں دیں، پھر بولا: یہ مجھے چھوڑ کر جارہی تھی، امی اس کو طلاق دیتا ہوں، لفظ طلاق صرف ایک بار ہی بولا، پھر اس کی امی نے اسے ڈانٹا، پھر وہ خاموش ہوگیا۔ اب جب رات ہوئی توسب کھانا کھا رہے تھے، میں بھی اپنے اور اس کی امی کے لیے کھانا لگانے گئی تو وہ میرے پیچھے آیا اور بولا کہ: میں تم کو بچے نہیں دے رہا تھا کہ ان کو لیکر جاؤ؟ میری طرف سے تم کو ایک، دو، تین ہے وہ جمعرات کا دن تھا، لفظ طلاق شام کو ساڑھے چار بجے بولا اور ایک، دو، تین رات کو دس بجے بولا، اس ٹائم میں حمل سے تھی تیسرا مہینہ تھا چھٹا مہینہ جب ہوا، تو حمل بھی ضائع ہوگیا، بیٹی پیدا ہوئی تھی، ایک دوگھنٹہ کے بعد فوت ہوگئی اور میں اب تک عدت میں بھی نہیں بیٹھی، مجھے شریعت معلوم کرنی ہے کہ میری طلاق ہوئی ہے کہ نہیں؟ میرا جو شوہر ہے وہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ میں نے تم کو کوئی طلاق نہیں دی، نہ ہی ایک دو تین بولا ہے، مجھے قرآن مجید لاکر دو میں اس کی قسم اٹھا تا ہوں، میں نے تم کو کوئی طلاق نہیں دی، اگر دی ہے تو مجھے گواہ لاکر دو، کوئی گواہ ہے تمہارے پاس؟ جب اس نے مجھے ایک دو تین بولا میرے پاس نزدیک کوئی نہیں تھا، سب دور تھے، اب وہ اور اس کے تمام گھر والے بول رہے ہیں کہ: تم اور تمہارا باپ خود طلاق لینا چاہتے ہو، میں نے اگر طلاق دی ہے تو مجھے کیوں کچھ یاد نہیں ہے، تم جھوٹ بول رہی ہو، میرے تین بچے بھی ہیں، دو بیٹےاور ایک بیٹی، مجھے میرے حق میں میرے بچوں کے حق میں بہتر شریعت کا فیصلہ دیں۔
صورت مسئولہ میں جب شوہر طلاق کا منکر ہے اور آپ کے پاس گواہ بھی نہیں، توعدالت یا پنچائیت میں قسم کے ساتھ شوہر کے قول کا اعتبار ہوگا، مگر چونکہ معاملہ حلال اور حرام کا ہے، اس لیے شوہر خوف آخرت کو سامنے رکھ کر قسم کھائے، ایسا نہ ہو کہ آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوجائے، اگر شوہر قسم کھا لے تو نکاح بدستور باقی سمجھا جائے گا۔
تاہم اگر آپ نے واقعی اپنے کانوں سے سنا ہےکہ شوہر نے طلاق دی ہے، تو کسی بھی صورت آپ کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کو اپنے آپ پر قدرت دیں، بلکہ کسی نہ کسی طریقہ سے اس سے خلاصی کی کوشش کریں، چاہے ڈرا دھمکا کر ہو یا خلع لے کر۔
نوٹ: مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے، وضع حمل (بچہ پیدا ہونے) کے بعدعدت ختم ہوجاتی ہے۔لما في الشامية:
’’والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في قول البحر:[إن الصريح يحتاج إلخ]، 448/4: رشيدية)
وفيها إيضا:
’’قالوا: لو ادعت أن زوجها أبانها بثلاث فأنكر فحلفه القاضي فحلف، والمرأة تعلم أن الأمر كما قالت لا يسعها المقام معه .... وفي الخلاصة: ولا يحل وطؤها إجماعا‘‘.(كتاب القضاء: 106/8: رشيدية)
وفي تبين الحقائق:
’’وَالْمَرْأَةُ كَالْقَاضِي لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعَتْ مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ شَهِدَ بِهِ شَاهِدُ عَدْلٍ عِنْدَهَا‘‘.(كتاب الطلاق، باب الطلاق: 41/3: دارالكتب العلمية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(و) في حق (الحامل) مطلقا.... أو طلقها تعتد بالوضع، جواهر الفتاوي (وضع) جميع (حملها) لان الحمل اسم لجميع ما في البطن‘‘(كتاب الطلاق، مطلب في عدة الموت: 192/5: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/208