کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر زوجین کے درمیان ایک طلاق بائن واقع ہوگئی پھر شوہر نے واپس نکاح کرنا چاہا تو تجدید نکاح کی کیا صورت ہوگی گواہ وغیرہ شرط ہے یا نہیں؟ یا سرے سے ایجاب و قبول کریگا؟
وضاحت: طلاق بائن سے یہ مراد ہے کہ طلاق کو شرط کے ساتھ معلق کیا تھا، پھر شرط کے واقع ہوجانے کے بعد طلاق واقع ہوگئی تھی، تعلیق طلاق کی صورت یہ تھی کہ والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اگر تو گھر میں داخل ہوا تو تیری ماں میری بہن ہے(یعنی مجھ پر حرام ہے)۔
ایک طلاق بائن کے واقع ہونے کے بعد تجدید نکاح کی وہی صورت ہوگی جو پہلی مرتبہ نکاح کی ہوتی ہے، یعنی جانبین سے ایجاب و قبول کے ساتھ ساتھ مہر جدید اور گواہوں کا ہونا بھی لازم و ضروری ہے۔لمافي الهندية:
’’إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها‘‘.(كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، 411/2، رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’( وينكح ) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع ومنع غيره فيها لاشتباه النسب‘‘.(كتاب الطلاق، فصل في العقد على المبانة ، 42/5، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/106