کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میت کی تعزیت ختم ہونے کے بعد اہل خانہ اس کے ایصال ثواب کے لیے خیرات کو لازم سمجھتے ہیں، اب یا تو رواج کی وجہ سے کرتے ہیں یا لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے یا ثواب کی نیت سے، اور اسی کے ذریعہ تعزیت کا اختتام سمجھا جاتا ہے، گویا کہ دن متعین نہیں کرتے اور اس کے علاوہ ایک خاص دعوت کر کے علاقے کے علمائے کرام کو مدعو کیا جاتا ہے، جس میں کھانے کے بعد خصوصی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کو لازم سمجھتے ہیں۔
یہ امور بذات خود جائز ہیں یا نہیں؟ اور ایسی دعوت میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ اور ایصال ثواب کو صرف خیرات پر منحصر کرنا کیسا ہے؟
صورت مسئولہ میں صدقہ و خیرات کا التزام، ایصالِ ثواب کو اسی میں منحصر سمجھنا اور علمائے کرام کے لیے خصوصی دعوت کو لازم سمجھنا شرعا ثابت نہیں، لہذا مذکورہ مروجہ ایصال ِثواب سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ مشروع صورتوں (مثلاً: نفلی نماز، صدقہ و خیرات، انفرادی قرآن کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار وغیرہ) کے ذریعے ایصال ثواب جس میں کوئی شرعی قباحت (مثلاً: نام و نمود، ریاء، کوئی عوض، لزوم وغیرہ ) نہ ہو، کا اہتمام کرنا چاہیے۔لما في المسند للإمام أحمد بن حنبل:
’’عن أبي رافع قال:ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين موجبين خصيين فقال أحدهما عمن شهد بالتوحيد وله بالبلاغ والآخر عنه وعن أهل بيته قال فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كفانا‘‘.(جلد:285/39، مؤسسة الرسالة)
وفي حاشية ابن عابدين:
’’الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة۔۔۔۔۔۔ وأما عندنا فالواصل إليه نفس الثواب وفي البحر من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع‘‘۔(كتاب الصلاة، باب الجنائز، 180/3، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة ۔۔۔۔۔۔۔وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره‘‘.(كتاب الصلاة، باب الجنائز، 175/3، رشيدية).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/278