کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے کچھ صدقہ کیا، مثلاً زید نے عمر کو کچھ صدقہ دیا کہ یہ خالد کو دو، اور اگر وہ پوچھے کہ کس نے دیا ہے تو آپ اسےکسی دوسرے آدمی کا نام بتانا میرا نام نہیں بتانا، اس مقام پر زید کی یہ بات جھوٹ کے زمرے میں آئے گی یا نہیں؟
اسی طرح اگر زید نے خالد کو کچھ صدقہ دیا اور خالد اس سے پوچھتا ہےکہ یہ کس نے دیا؟ تو زید اپنے اس عمل کو ریا وغیرہ یعنی دکھاوے سے بچانے کے لئے کہتا ہے کہ عمر نے دیا یا کہتا ہے کہ کسی دوسرے نا معلوم شخص نے دیا ہے میں نے نہیں دیا، تو زید کی یہ بات جھوٹ میں شمار ہوگی یا نہیں اور اس کو صدقہ دینے کے ساتھ جھوٹ کا گناہ ہوگا یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں صدقہ دینے میں کسی دوسرے شخص کا نام ذکر کرنا، یہ جھوٹ میں داخل ہے، کیونکہ ریاء سے بچنا تو ضروری ہے لیکن دوسرے شخص کا ذکر کرنا یہ بھی اخلاص سے مانع ہے،اگر کوئی صدقہ دینے میں خود کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تو احتیاط اسی میں ہے کہ وہ محض یہ کہہ دے کہ یہ ایک بندہ خدا کی طرف سے ہے۔لما فی مشکاۃ المصابیح:
وعن شداد بن أوس قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ’’من صلى يرائي فقد أشرك ومن صام يرائي فقد أشرك ومن تصدق يرائي فقد أشرك‘‘.(كتاب الرقاق، باب الرياء والسمعة، رقم الحديث:5331، دار الكتب العلمية بيروت)
وفي سنن أبي داود:
عن أمه أم كلثوم بنت عقبة قالت ما سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يرخص فى شىء من الكذب إلا فى ثلاث كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:’’لا أعده كاذبا الرجل يصلح بين الناس يقول القول ولا يريد به إلا الإصلاح والرجل يقول فى الحرب والرجل يحدث امرأته والمرأة تحدث زوجها ‘‘.(كتاب الأدب، باب في اصلاح ذات االبين، رقم الحديث،4921، دار السلام رياض)
وفي التنوير مع الدر:
’’الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام‘‘.(كتاب الحظر والاباحة، 704/9،رشيدية)
وتحته في الرد:
’’واعلم أن الكذب قد يباح وقد يجب والضابط فيه كما في تبيين المحارم وغيره عن الإحياء أن كل مقصود محمود يمكن التوصل إليه بالصدق والكذب جميعا فالكذب فيه حرام وإن أمكن التوصل إليه بالكذب وحده فمباح إن أبيح تحصيل ذلك المقصود وواجب إن وجب تحصيله‘‘.(كتاب الحظر والاباحة، 705/9، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/60