کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی کو اس کے شوہر نے تقریبا چار ماہ پہلے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں، پھر اس کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ رہے اور اس کے شوہر نے رجوع کرلیا تھا، پھر کچھ وقت کے بعد دوبارہ کہا کہ میں تمہیں دو طلاقیں دتیا ہوں، اس کے بعد وہ میری بیٹی کو میرے گھر چھوڑ کر چلا گیا، میری بیٹی کی شادی کے وقت اس کا مہر 6تولہ سونا طے ہوا تھا، جو اب بھی شوہر کے پاس ہے اور وہ میری بیٹی کو نہیں دے رہا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ میں مکمل طلاق ہوگئی ہے یا نہیں(طلاق دینے کا اقرار وہ کئی لوگوں کے سامنے کرچکا ہے اور اب بھی کرتا ہے) اور جو سونا بطور مہر شوہر نے دیا تھا(ہمارے علاقوں میں بیوی کا مہر سونا ہوتا ہے نقدی نہیں دیتے) اس کا کیا حکم ہے؟ میں ان کے پاس گیا تھا، لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا اس طرح شادی کی دیگر چیزوں کا کیا حکم ہے؟(جیسے کپڑے، عورتوں کی ضرورت کا سامان وغیرہ) اس پر میری بیٹی کا حق ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی مذکورہ سوال کا جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
صورت مسئولہ میں شوہر چونکہ اپنی بیوی کو تین دفعہ زبانی طلاق دے چکا ہے، اس لیے بیوی اپنے شوہر پر طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی حلالہ شرعیہ کے بغیر تجدید نکاح۔
لہذا شوہر پر پورا 6 تولہ سونا بطور مہرادا کرنا لازم ہوگا، جہاں تک دیگر چیزوں مثلاً: کپڑے، ضرورت کی اشیاء کی بات ہے، تو جو چیزیں شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہے، بیوی ان کی مالک ہو گئی ہے، شوہر واپس نہیں لے سکتا۔لما في التنزیل :
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}.[البقرة: 230]
وفي الدر المختار:
’’كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين‘‘.(کتاب الطلاق، باب الطلاق غیر المدخول بها:4 /510،509: رشیدىة)
وفي تنوير الأبصار مع الدر المختار:
’’(ولا ترد) النفقة والكسوة (المعجلة) بموت أو طلاق عجلها الزوج أو أبوه ولو قائما، به يفتى‘‘.
قال ابن عابدین في هامشه:
’’قوله:(عجلها الزوج أو أبوه)....ووجهه أنها صلة لزوجته ولا رجوع فيما يهبه لزوجته والعبرة لوقت الهبة لا لوقت الرجوع فالزوجية من الموانع كالموت ودفع الأب كدفع الابن فلا إشكال.بحر‘‘.(کتاب الطلاق، باب النفقة:319/5: رشیدية)
وفي الهداية :
’’ومن سمى مهرا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها‘‘.(کتاب النکاح، باب المهر:49/2:دارالدقاق).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/264