کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے ایک تحریر میں پڑھا ہے یہ جو بیان میں بولا جاتا ہے کہ حضور ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کیے ہیں، ہم نے تحریر میں پڑھا ہے یہ معتبر ثبوت نہیں ہے (تفسیر روح المعانی، سورۃ القمر) کیا حضور ﷺ کی طرف اس بات کو بولا جاسکتاہے یا نہیں؟ جواب دے کر آپ ہماری اصلاح فرمائیں۔
واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ کے معجزے کے طور پر شق القمر (چاند کا دو ٹکڑا ہونا) کے واقعہ کا پیش آنا تو صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس میں جو یہ خاص کیفیت مشہور ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی انگشت مبارک سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے، کافی تلاش و بسیار کے بعد بھی کسی روایت میں اس کا ثبوت نہیں ملا، بلکہ بعض اہل علم نے اس خاص کیفیت کے ثبوت کی تردید کی ہے؛ لہذا اس خاص کیفیت کے ساتھ اس کو بیان نہ کیا جائے۔لما فی الصحیح للبخاری:
’’عن ابن مسعود قال انشق القمر على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فرقتين فرقة فوق الجبل وفرقة دونه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشهدوا»‘‘.(کتاب التفسیر، باب وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، رقم الحدیث:4864، ص:861: دارالسلام)
وفی الصحیح لمسلم:
’’عن عبد الله قال انشق القمر على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشقتين فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «اشهدوا»‘‘.(کتاب صفات المنافقین واحکامهم، باب انشقاق القمر، رقم الحدیث:7071: دارالسلام)
وفی عمدۃ القاری:
’’قال المشركون للنبي إن كنت صادقا فاشقق لنا القمر فقال آن فعلت تؤمنون ؟قالوا
:نعم، وكانت ليلة الجمعة، فسأل الله تعالى فانشق فرقتين: نصف على الصفا ونصف على قعيقعان‘‘.(کتاب التفسیر، باب: ﴿وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا﴾(سورۃ القمر1) 297/19: دارالکتب العلمية)
وفی روح المعانی:
’’وقد شاع أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أشارإلى القمر بسبابته الشريفة فانشق ولم أره في خبر صحيح والله تعالى أعلم‘‘.(سورۃ القمر: 179/26: مؤسسةالرسالة).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/179