کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور عمرو آپس میں یوں معاملہ کرتے ہیں کہ زید بکریاں خرید کر پالنے کے لیے عمرو کو دے گا اور عمرو بکریوں کا فارم بنانے اور ان کے لیے چارہ وغیرہ کاشت کرنے کے لیے اپنی زمین دے گا، فارم بنانے کے جتنے اخراجات ہوں گے وہ زید برداشت کرے گا اور جانوروں کی دیکھ بال اور ان کے لیے چارہ وغیرہ اپنی زمین پر کاشت کرنے کے اخراجات عمرو برداشت کرے گا، البتہ صرف ونڈا خرید نے کا خرچہ دونوں برداشت کریں گے، نیزاگرکوئی بکری مرجاتی ہے تو وہ نقصان زید کا شمار ہوگا، دو تین سال بعد جب بکریاں بیچیں گے، تو منافع آپس میں دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا، بالفرض اگر نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان صرف زید ہی برداشت کرے گا۔
نیز یہ معاملہ کرتے وقت زید عمرو کو ایک گائے بھی دیتاہے اور اسے کہتا ہے کہ: اس کا دودھ بکریوں کے پالنے کے عوض بطور اجرت ملے گا، اور بکریوں کا دودھ بھی عمرو کو بطور اجرت ملے گا۔
واضح رہے معاملہ ختم ہونے کے بعد عمرو وہ گائے زید کو واپس کرے گا، اگر اس پوری مدت کے دوران گائے کا کوئی بچہ وغیرہ ہوتا ہے وہ عمرو کا ہوگا، اس کو وہ واپس نہیں کرے گا، لہذا آپ حضرات سے درجہ ذیل امور میں رہنمائی درکار ہے :
۱…کہ زید اور عمرو نے آپس میں جو معاملہ کیا ہے اس کی شرعا حیثیت کیا ہے؟ معاملہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو متبادل صورت بھی ذکر کردیں۔
۲…بکریاں پالنے کے عوض میں عمرو کے لیے جو اجرت طے کی گئی ہے اس کا شرعا کیا حکم ہے؟
۱…صورت مسئولہ میں ذکر کر دہ صورت اجارہ فاسدہ کی ہے، جو کہ جائز نہیں ہے، البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے، کہ زید عمرو کے لیے اس کی خدمت اور عمل کے عوض مہینہ کے اعتبار سے اجرت متعین کرے یا زید اور عمردونوں جانوروں کی ملکیت میں شریک ہوجائیں اور خرچہ بھی دونوں پر ہوگا اور نفع آپس میں آدھا آدھا طے کریں۔
۲…گائے کے دودھ کو بکریوں کے پالنے کی اجرت قرار دینا جائز نہیں ہے۔لمافي التنوير مع الدر :
’’وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة‘‘.(كتاب الاجارة :9/9: رشيديه)
وفيه أيضا :
’’(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال ولا عبرة بشرط الفضل ) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله‘‘.(كتاب الشركة: 498/6: رشيديه)
وفي البحر :
’’وشرطها أن تكون الأجرة والمنفعة معلومتين لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة‘‘.(كتاب الاجارة: 297/7:رشيديه).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/309