کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر سے چھ لاکھ روپے لیے اس شرط پر کہ زید یہ پیسے چھ مہینے کے بعد یک مشت لوٹائے گا اور ساتھ ہی ہر مہینے قرض کے علاوہ چھ ہزار روپے مثلا بطور سود کے بھی ادا کرتا رہے گا ،جب چھ مہینے پورے ہوجائیں گے ،تو چھ لاکھ روپے الگ سے ادا کرنا معاہدے کے مطابق لازم ہوں گے ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ:
۱…اب زید معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے ، تو کیا ابھی تک جتنی رقم سود کی ادا کرتا رہا ہے ، وہ اصل رقم سے منہا کی جائے گی یا نہیں؟
۲…جتنی رقم زید نے اصل قرض کے علاوہ ابھی تک ادا کی ہے ، وہ بکر کے پاس موجود ہے ، تو ان رقوم کا کیا حکم ہے ؟
نوٹ: صورت مسئولہ میں نام فرضی ہیں ،مگر مسئلہ دو فریق کے درمیان بعینہ ایسا ہوا ہے اور یہ معاملہ ہمارے علاقے میں بہت عام ہے ۔
صورت مسئولہ میں بکر نے ماہوار جتنی رقم بھی بطور سود حاصل کی ہے ، وہ اصل قرض سے منہا کی جائے گی۔لما في التنوير مع الدر:
’’(القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شئ آخر، فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا)...(وكان عليه مثل ما قبض)...وفي الخلاصة: القرض بالشرط حرام، والشرط لغو... وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام‘‘.(كتاب البيوع،مطلب كل قرض جر نفعا حرام: 412/7:رشيدية)
وفي ردالمحتار:
’’إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه‘‘.(كتاب البيوع، مطلب في زيادة المبيع فاسدا: 307/7:رشيدية)
وفي البدائع:
’’وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه:(نهى عن قرض جر نفعا)‘‘.(كتاب القرض، فصل في الشرط: 597/10:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی