شادی کے وقت مہر کے علاوہ لڑکی کو ملنے والے سامان کا حکم

شادی کے وقت مہر کے علاوہ لڑکی کو ملنے والے سامان کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی شادی ہوئی، شادی سے پہلے لڑکی والوں نے لڑکی کو میک اپ میں دکھایا، بعد ازاں رخصتی کے لڑکی کو بغیر میک اپ کے دیکھا، تو یکساں بدلی ہوئی تھی، اور کافی عرصہ (تقریبا سوا سال) کوشش کرنے کے باوجود جب لڑکے کا دل بیوی کی طرف مائل نہیں ہوا، اور میاں بیوی میں اختلاف ہونے لگے، کہ شوہر بیوی کو توجہ نہیں دیتا، بالآخر بات طلاق کو جا پہنچی۔
اب سوال یہ ہے کہ لڑکی کو شادی کے وقت جو سونا لڑکے والوں کی طرف سے بطور مہر اور اس کے علاوہ  سسرال اور سسرال کی طرف کے رشتہ داروں سے ملا ہے، جس کی مالیت تقریبا 15 سے 20 لاکھ  کے درمیان بنتی ہے، کیا وہ واپس کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتاہے؟ کیوں کہ لڑکی والوں کی طرف سے چیزیں چھپائی گئیں (حلیہ بالکل مختلف دکھایا گیا) اور سونے کی قیمت اچھی خاصی بنتی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جو سونا لڑکی کو بطور مہر ملا ہے، وہ عورت کا حق  ہے، عورت کی  رضامندی کے بغیر شوہر اس سے واپس لینے کا  کوئی  اختیار نہیں رکھتا، اور جو چیزیں عورت کو سسرال یا سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے ملی ہیں، وہ ہدیہ ہے، اور ہدیہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
لما في روح المعاني:
’’(وإن أردتم) أيها الأزواج (إستبدال زوج) ...(مكان زوج) أي امرأة ترغبون عنها بأن تطلقوها... وقد آتيتم التي تريدون أن تطلقوها وتجعلوا مكانها غيرها (قنطارا) أي مالا كثيرا، وقد تقدمت الأقوال فيه، فلا تأخذوا منه، أي: من القنطار المؤتى شيئا (فلا تأخذوا منه) أي: من القنطار المؤتى (شيئا) يسيرا، أي: فضلا عن الكثير‘‘.(سورة النساء[رقم الأية:20]، 396/5: مؤسسة الرسالة)
وفي صحيح البخاري:
حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا هشام وشعبة قالا:حدثنا قتادة عن سعيد بن المسيب عن ابن عباس رضي الله عنهما،قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم:((العائد في هبته كالعائد في قيئه)).(كتاب الهبة، باب لايحل لأحدأن يرجع في هبته: دار السلام)
وفي الرد:
’’قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس، ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر‘‘.(كتاب النكاح، باب المهر:300/4: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/37