سود پر خریدی گئی دکان کی آمدنی کا حکم

سود پر خریدی گئی دکان کی آمدنی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین بھائی ہیں، اور ہماری دو دکانیں ہیں، بھائیوں میں سے ایک بھائی سعودی عرب میں ہوتے ہیں، ایک بھائی مدرسہ پڑھتا ہے اور ایک بھائی ایک دکان میں ہوتے ہیں اور دوسری دکان میں والد صاحب ہوتے ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب نے یہ دوسری دکان ادھار پر لی ہے اورمالک نے یہ شرط لگائی ہے کہ جب تک اصل قیمت آپ کے ذمے ہے اس وقت تک آپ ہر مہینے چھ چھ ہزار مجھے دو گےتو کیا یہ سود ہے؟ اگر سود ہے تو پھر اس طالب علم کے لیے کیا حکم ہے؟ کیونکہ اس کا والد ہر مہینے اس کے لیے خرچہ بھیجتا ہے، کیا یہ رقم اس طالب علم کے لیے حرام ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو زائد رقم فروخت کرنے والے کو دی جارہی ہے وہ سود ہے، اور والد صاحب کی دکان کی آمدنی اس سے حرام نہیں ہوگی، لہذا اس کی آمدنی طالب علم کے لیے حلال ہے۔
لما فی التنزیل الحکیم:
﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾(البقرة: 275)
وفي الدر المختار:
’’هو لغة مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية و بحر (خال عن عوض)‘‘.
وتحته في الشامية:
’’لأن الربا هو الفضل الخالي عن العوض، وحقيقة الشروط الفاسدة هي زيادة ما لا يقتضيه العقد ولا يلائمه فيكون فيه فضل خال عن العوض وهو الربا بعينه‘‘.(باب الربا: 220/15: دار السلام)
وفي العناية:
وفي الاصطلاح: هو الفضل الخالي عن العوض المشروط في البيع.(کتاب البیوع: 7/3: رشیدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی