سودی رقم سے مسجد کی قالین خریدنا

سودی رقم سے مسجد کی قالین خریدنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کراچی ائیرپورٹ پر اندر کی طرف ایک مصلی بنا ہوا ہے، مسافر آتے جاتے اس پر نماز پڑھتے ہیں اور وہاں پر کام کرنے والا عملہ اپنی نمازوں کی ادائیگی اسی مصلی پر کرتے ہیں، ابھی کچھ عرصہ سے اس مصلی کا قالین فیصل بینک نے بچھایا ہے، اور اس کی  لکڑی کی چار دیواری پر بینک کے اسٹیکر بھی لگائے ہیں۔
۱…کیا مسافروں کا اس قالین پر نماز پڑھنا درست ہے؟
۲…وہاں موجود عملہ  کا نماز پڑھنا اس پر کیسا ہے؟ جب کہ وہاں اس کے علاوہ کوئی اور مصلی بھی نہیں ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعتا کسی بینک کی طرف سے مذکورہ قالین کا اہتمام کیا گیا ہے، تو اس پر نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہذا وہاں موجود عملہ اور دوسرے مسافر وں کو چاہیے کہ جب تک وہ قالین بچھی ہوئی ہےاس پراپنی جائے نماز یا چادر وغیرہ بچھاکر نماز ادا کریں۔(کذا فی کفایت المفتی: 264/10، ادارۃ الفاروق کراچی)
لمافي التنزيل:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾.(سورة البقرة: 278)
وفي روح المعاني:
’’ويستفاد من الآية أيضا على -ما قيل- النهي عن الصلاة في مساجد بنيت مباهاة أو رياء وسمعة أو لغرض سوي إبتغاء وجه الله تعالى، وألحق بذلك مسجد بني بمال غير طيب‘‘.(سورۃ التوبة: 512/10، مؤسسة الرسالة)
وفي الرد:
’’قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره، لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله‘‘.(كتاب الصلوة، 520/2: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/135