کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک آدمی نماز میں سنت یا مستحب کے ترک ہونے پر سجدہ سہو کرتا ہے، تو کیا واجب کے ترک کے بغیر اگر سجدہ سہو کرتا ہے تو اس سے نماز میں کچھ خرابی واقع ہوگی یا نہیں؟
سجدہ سہو صرف ترک واجب پر ہوتا ہے، ترک سنت یا مستحب پر نہیں ہے، ہدایہ میں باب سجود السہو
میں لکھا ہے کہ :’’ویلزمه إذا ترک فعلاً واجباً إلا أنه اراد بتسميته سنة أن وجوبها بالسنة‘‘. (کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو:157/1)
در مختار میں ہے کہ :’’فیجب بترک واجب‘‘.(الشامي:497/1)
اسی طرح در مختار ہی میں باب صفۃ الصلاۃ میں ہے کہ :’’ولها واجبات لاتفسد بترکها و تعاد وجوباً في العمد والسهو ان لم یسجد لها..... و ترک السنة لا یوجب فساداً و لا سهواً‘‘. (1 /306،318)
طحطاوی علی الدر المختار میں ہے کہ :’’قوله:(بترک واجب) قید به لانه لا یجب بترک سنة کالثناء و التعوذ‘‘.(کتاب الصلاۃ: 310/1)۔
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو صرف واجب کے ترک پر واجب ہوتا ہے، اس کی کوئی مسنون قسم نہیں ہے، کہ ترک سنت پر مسنون یا ترک مستحب پر مستحب ہو، اور نماز کو ایسے افعال سے بچانا ضروری ہے کہ جو فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات کے قبیل سے نہ ہوں۔ فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/168