کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندے نے بینک میں سلور silverکرنٹ اکاؤنٹ کھلوایا ، بینک والوں نے کہا کہ اگر آپ ہمارے پاس 50ہزار روپے رکھواتے ہیں، تو بدلے میں آپ کو ان پیسوں کے بدلے کوئی چارجز ادا کرنے نہیں ہوں گے، نہ A.T.Mکارڈ کے چارجز، اور نہ کوئی اور، لیکن شرط یہ ہے کہ 50ہزار روپے برقرار رکھنے ہوں گے، جس مہینے میں یہ 50ہزار روپے سے کم ہوں گے، تو اس مہینے بینک والے آپ کے اکاؤنٹ سے 320روپے کاٹ دیں گے۔
اب آیا کہ یہ 50 ہزار روپے رکھوانا ٹھیک ہے یا نہیں، اور یہ فریڈم freedom والا کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا کیسا ہے، نیز یہ بھی بتائیں کہ اس کے جائز ہونے کی کیا صورت ہے؟
صورت مسئولہ میں سلور silverکرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کے لئے ماہانہ 50 ہزار روپے رکھنے کی شرط پر چیک بک اور دیگر سروسز پر کوئی چارجز نہ لینا، قرض پر منفعت کی وجہ سے درست نہیں۔
نیز فریڈم freedom کرنٹ اکاؤنٹ کا بھی یہی حکم ہے، جب یہ شرط نہ ہو تو پھر یہ مذکورہ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے۔لما في الدر مع الرد:’’وفي الخلاصة: القرض بالشرط حرام، والشرط لغو... وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام‘‘.’’قوله: (كل قرض جر نفعا حرام) أي: إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي: لا بأس به‘‘.(كتاب البيوع، فصل في القرض: 413/7، رشيدية)وفي بدائع الصنائع:’’وأما الذي يرجع إلى نفس القرض، فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة؛ على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله- صلى الله عليه وسلم- أنه نهى عن قرض جر نفعا‘‘.(كتاب القرض، فصل في الشروط: 598/10، رشيدية)وفي الفتاوى التاتارخانية:’’قال محمد في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة كان يكره كل قرض جر منفعة، قال الكرخي: هذا إذا كان المنفعة مشروطة في العقد‘‘.(كتاب البيوع، الفصل الرابع والعشرون في القرض: 388/9، فاروقية كوئته).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/04