سال پورا ہونے پر زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا

سال پورا ہونے پر زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سال پوراہونے پر جب زکوۃ کی ادائیگی فرض ہوگئی تو ہم نےاس وقت حساب کرکے زکوۃ کی رقم الگ کرلی اور پانچ یا چھ مہینے میں تھوڑی تھوڑی رقم کرکے مستحقین تک پہنچادی تو ایسا کرنا شرعا ٹھیک ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب نصابِ زکوۃ پر سال گزرجائےتو اس میں بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد مستحقین تک زکوۃ کی رقم پہنچادی جائیں، یہی احوط ہے اور اگر تھوڑی تھوڑی رقم کرکے الگ الگ مستحقین تک بنیت زکوۃ دیدی، تو یہ بھی جائز ہے، البتہ بلا عذر زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا پسندیدہ نہیں۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للاداء (ولو) كانت المقارنة (حكما)...(أو مقارنة بعزل ما وجب) كله أو بعضه ولا يخرج عن العهدة بالعزل، بل بالاداء للفقراء‘‘.(كتاب الزكاة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء: 222/3، رشيدية)
وفي الشامية:
’’(فيأثم بتأخيرها) بلا عذر‘‘.
’’ قوله:(فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ‘‘.فتأمل.(كتاب الزكاة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء: 227/3، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 191/332