کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ عرصہ قبل ہمارے خاندان کے بڑوں نے باہمی مشورے سے (ذاتی حیثیت میں )ایک فنڈ(Fund)قائم کیا ، جس میں اپنے تمام رشتے داروں سے مالی تعاون کی درخواست کی، تاکہ ایک معقول رقم جمع کی جائے ، اور اپنے عزیز واقارب کی مختلف مدوں میں مدد کی جائے ۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس زکو ۃاور عام عطیات(Donation)کی مد رقم بھی وصول ہوئی، اس رقم سے ہم محدود آمدنی اور محدود وسائل رکھنے والے رشتے داروں اور عزیز واقارب کی (روز مرہ کے امور میں) مدد کرتے ہیں ، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
اب کیونکہ رمضان مبارک کی آمد آمد ہے ، لہذا ارادہ ہے کہ راشن کی مد میں مستحق خاندانوں کی خدمت کی جائے،اس فنڈ میں زکوۃ اور عام عطیات(Donation)دونوں شامل ہیں ۔ یہاں آپ سے رہنمائی یہ لینی ہے کہ راشن بیگ تقسیم کرتے وقت اس فنڈ(Fund)یعنی زکوۃ اور عام عطیات کی رقم کو ایک ساتھ استعمال کرنے میں کوئی احتمال تو نہیں؟نیز راشن کے علاوہ بھی جو ان رشتے داروں میں فنڈ(Fund)کی تقسیم ہےاس میں زکوۃ اور عام عطیات(Donation)کی رقم ایک ساتھ ملا کر دینے میں کوئی احتیاط تو نہیں ؟مہربانی فرماکر اس سلسلے ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں ، تاکہ اطمنان قلبی ہوسکے۔(شکریہ)
صورت مسئولہ میں جن رشتے داروں اور عزیز واقارب کی فنڈ سے مدد کی جاتی ہے، وہ واقعی زکوۃ کے مصارف (فقیر یا مسکین وغیرہ) میں سے ہوں تو زکوۃ اور عام عطیات (Donation)کی مد میں جمع کی ہوئی رقم کو ملا کر ان رشتہ داروں کی امداد کرنے کی گنجائش ہے ۔
یاد رہے اگر وہ عزیز واقارب زکوۃ کے مصارف میں سے نہ ہوں تو صرف عام عطیات (Donation)سے ان کی مدد کی جائے،زکوۃ کی رقم سے ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز نہیں۔لما في التنزيل:
’’إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ‘‘.(التوبة:60)
وفي التنوير مع الدر:
’’أي مصرف الزكاة والعشر....(هو فقير، وهو من له أدنى شئ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة (ومسكين من شئ له) على المذهب.... (و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الاصلية من أي مال كان‘‘.(كتاب الزكاة، باب المصرف، 333/3: رشيدية)
وفي بدائع الصنائع:
’’وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني ؛لأنها تجري مجرى الهبة."(كتاب الزكاة، فصل في الذي يرجع إلى المؤدى إليه، دار الكتب العلمية)
وفي التاتار خانية:
’’فأما الصدقة على وجه الصلة والتطوع فلابأس به، وفي الفتاوى العتابية: وكذلك يجوز النفل للغني‘‘.(كتاب الزكاة، الفصل الثامن من توضع فيه الزكاة، 214/3: رشيدية).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/217