زوجہ مجنون کا حکم

زوجہ مجنون کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر شادی شدہ انسان مکمل طور پر مجنون ہوجائے، اس طر ح کہ اس کے صحیح ہونے کا بالکل کوئی امکان نہ ہو، اور ایک سال اسی طرح گزر جائے ،تو کیا اس مجنون کی بیوی کے لیے یہ صحیح ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کرے؟ طلاق لینے کی تو کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے کہ شوہر کو بالکل ہوش نہیں ہے، اس صورت میں یہ عورت کیا کرے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کے عقد نکاح میں رہتے ہوئے عورت کے لیے جائز نہیں کہ بغیر طلاق لیے کسی دوسری جگہ نکاح کرے۔
البتہ اگر شوہر کو ایسا جنون لاحق ہوجس کے صحیح ہونے کا بالکل امکان نہ ہو اور جنون بھی عقد نکاح کے بعد لاحق ہو، تو اس کی بیوی کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار ہے،بشرطیکہ مرد کے مجنون ہونے کا علم ہونے کے بعد عورت نے اس کے ساتھ رہنے کی صراحت نہ کی ہو، اور نہ ہی عورت نے جماع یا دواعی جماع پر اس کو قدرت دی ہو۔
اگر مذکورہ شرط نہ پائی جائے تو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں رہے گا، البتہ اگر مجنون (شوہر) کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو اور نہ ہی عورت کو نان ونفقہ دینے پر قادر ہو ،تو اس صورت میں عورت کے نہایت اضطرار کے پیش نظر قاضی یا اس کا قائم مقام ان میں تفریق کراسکتا ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں عورت کو چاہیے کہ عدالت میں درخواست پیش کرے، اور گواہوں سے ثابت کرے کہ فلاں شخص اس کا شوہر ہے وہ مجنون ہے اور نان ونفقہ دینے پر قادر نہیں ، اور نہ ہی کوئی اس کے نفقہ کا کفیل ہے، اس پر قاضی مجنون کے ولی کو نان ونفقہ کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے،جبکہ جنون کے علاج کے لیے ایک شمسی سال کی مہلت کا حکم سنائے ،اور اگر مجنون کا کوئی ولی نہ ہو ،تو قاضی کسی شخص کو اس کا وکیل مقرر کر کے اسے حکم سنائے ایک سال گزرنے پر اگر شوہر کو افاقہ نہ ہو یا نان ونفقہ کی متعین میعاد میں نفقہ کا انتظام نہ کرسکے اور عورت پھر درخواست پیش کرے، تو قاضی عورت کو اختیار دے دے، اگر عورت اسی مجلس میں تفریق طلب کرے تو قاضی ان میں تفریق کرسکتا ہے۔
لیکن مذکورہ عورت کے لیے طلاق یا فسخِ نکاح کرائے بغیر دوسری جگہ شادی کرنا جائز نہیں۔
لما في منحۃ الخالق علی البحر الرائق:
’’قال في النھر: وقیل یعتبر لأنہ یفوت مقاصد النکاح فکان أشد من الفقر ودنائۃ الحرفۃ وینبغي إعتمادہ لأن الناس یعبرون بتزویج المجنون أکثر من دنيئ الحرفۃ الدنیئۃ، وفي البنایۃ عن المرغینانی: لایکون المجنون کفؤاً للعاقلۃ، وعند بقیۃ الأئمۃ ھو من العیوب التي ینفسخ بھا النکاح‘‘. (کتاب النکاح، فصل في الکفاءۃ: 235/3، رشیدیۃ)
وفي المدوّنۃ الکبریٰ:
’’(قلت) فالمجنون المطبق(قال) لم أسمع من مالک في ھٰذا شیئاً، قال: وقال لی مالک في المجنون إذا أصابہ الجنون بعد تزویجہ المرأۃ أنہ یعزل عنھا ویضرب لہ أجل سنۃ في علاجہ فإن براء وإلا فرق بینھما‘‘. (في ضرب الأجل لإمرۃ المجنون والمجذوم: 892/3، نزارِ مصطفیٰ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:104/ 177