کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے والد صاحب اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا چاہتا ہے زید کی والدہ کا سات سال قبل انتقال ہوگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ :
(۱)…اگر زندگی میں وراثت تقسیم کریں تو اس کا کیا طریقہ ہوگا ؟
(۲)…اگر زندگی میں وراثت تقسیم کریں اور اس تقسیم میں اپنی مرضی سے کسی کو زیادہ کسی کو کم یا کسی کو کچھ نہ دے، تو کیا اللہ کے ہاں پکڑ ہوگی ؟
(۱،۲)…مورث کا اپنی زندگی میں جائیداد کو تقسیم کرنا چونکہ ہبہ ہے، لہذا تقسیم جائیداد کے وقت اولاد میں برابری ہونی چاہئے، اگر مورث اپنی اولاد میں سے کسی کو فضل وتقوی یا غربت یافرمانبرداری وغیرہ کی وجہ سے اپنے حصہ سے زیادہ حصہ دے، تو یہ شرعا جائزہے، بشرطیکہ مقصد دیگر ورثاء کو نقصان پہنچانا نہ ہو، البتہ اگر اولاد بے دین اور نافرمان ہو،تو میراث سے محروم کرنے میں کوئی حرج نہیں، بہتر یہ ہے کہ ان کو بقدر گزارہ جائیداد میں سے کچھ دے دیا جائے اور باقی رقم کو کسی کار خیر میں خرچ کریں۔لما في الدر :
’’وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم‘‘.(كتاب الهبة: 583/8: رشيدية)
وفي خلاصة الفتاوى :
’’قال الامام طاهر بن عبد الرشيد البخاري رحمه الله تعالى: ولوكان ولده فاسقا فاراد ان يصرف ماله الى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا حير من تركه لان فيه اعانة على المعصية‘‘.(كتاب الهبة: 400/4: رشيدية)
وفي الهندية :
’’ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار‘‘.(كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير: 416/4: دارالفکر).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/234