زنا کے ثبوت کے لیے کتنے گواہ ضروری ہیں؟

زنا کے ثبوت کے لیے کتنے گواہ ضروری ہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی جوکہ شادی شدہ ہے، خاوند گھر میں موجود نہیں تھا اور نہ ہی گھر میں کوئی اور موجود تھا، سوائے ایک بچی کے جس کی عمر تقریبا11 یا 12 سال ہے، وہی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ میں نے دیکھا: ایک شخص بعد از نماز مغرب آیا اور پھر عشاء تک آپس میں باتیں کرتے رہیں، اور پھر عشاء کے بعد دونوں ایک ہی چارپائی پر لیٹے، صبح سویرے وہ شخص اپنے گھر چلا گیا، مذکورہ خاتون کو فون پر عرصہ دراز سے رابطہ رہا ہے، کئی کئی گھنٹے آپس میں باتیں بھی ہوتی رہی ہیں، اس کے گواہ بہت سارے لوگ ہیں، ایسے حالات میں ہم گھر والوں کے لیے شرعا کیا حکم ہے؟ جبکہ مکمل پروف ہمارے پاس نہیں ہے، اس کے خاوند کو تمام حقائق سے آگاہ کیا گیا، اور یہ دونوں آپس میں میاں بیوی کے طور پر رہ رہے ہیں۔
کیا ہم اس عورت کی پکی ہوئی روٹی کھا سکتے ہیں، ہمارے بزرگ کہتے ہیں: کہ وہ توبہ کرلے تو معاملہ رفع دفع ہوسکتا ہے، ایسے حالات میں کیا اس کو قسم دی جائے یا اور کوئی حل موجود ہے، اس معاملے میں ہماری فیملی سخت پریشان ہے، برائے مہربانی جتنی جلدی ممکن ہو، قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ مأجور ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی پر زنا کا الزام لگانے کے لیے شرعا چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے، اس سے کم میں زنا ثابت نہیں ہوگا اور بچی کی گواہی اس معاملے میں معتبر نہیں ہے، لہذا جب آپ حضرات کے پاس زنا کے گواہ نہیں ہیں، تو آپ حضرات عورت پر زنا کا الزام نہیں لگا سکتے، جب ان حقائق سے شوہر کو آگاہ کیا گیا تو اس کی اور خاندان کے تمام افراد کی ذمہ داری ہے  کہ عورت کو اس قسم کی حرکات سے باز رکھے، اور اس کی سخت نگرانی کرے، اور عورت پر بھی لازم ہے اگر اس سے جرم سرزد ہوا ہے تو وہ توبہ استغفار کرے۔
لما في التنزیل:
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ . . . . . وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ } [النور: 6-9]
وفي مشکاۃ المصابیح:
عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان ".(باب الأمر بالمعروف، الفصل الأول، ص: 436: قدیمی کتب خانہ)
وفي مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح:
’’عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذاوخيرهما الذي يبدأ بالسلام» . متفق عليه،  (فوق ثلاث ليال) . . . . . .قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. . . . . .فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق‘‘.(کتاب الآداب،باب ما ینھی عنہ في التھاجر والتقاطع، رقم الحدیث:272: 758/5: رشیدیۃ)
وفي فتح الباري لابن حجر:
’’ قوله: (باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها‘‘.(باب ما يجوز من الهجران لمن عصى: 497/10: دارالفکر)
وفي التنویر مع الدر:
’’وشرعا (شهادات) أربعة كشهود الزنا (مؤكدات بالأيمان مقرونة شهادته) باللعن . . . . . (قائمة) شهاداته (مقام حد القذف في حقه و) شهاداتها (مقام حد الزنا في حقها)‘‘.(باب اللعان: 482/3: دارالفكر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:185/312