کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے نانا نے اپنی زندگی میں اپنی زمینوں کا انتقال کیا تھا اور اس کی لکھت پڑھت کی تھی، لیکن نہ تو ان زمینوں کی تعیین کی اور نہ ہی ان کے حدود بیان کیے اور اپنی بھتیجی کو اپنی زندگی میں قبضہ بھی نہیں دیا، اب اس صورت میں شریعت کا حکم کیا ہے؟
واضح رہے کہ ہبہ تام ہونے کے لیے قبضہ دینا شرط ہے، لہذا صورت ِمسئولہ میں مذکورہ زمینوں میں بھتیجی کو قبضہ نہ دینے کی وجہ سے شرعی طور پر ہبہ تام نہیں ہوا، جس کی وجہ سے بھتیجی کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی، اس لیے مذکورہ زمینیں بدستور مرحوم کے ترکے میں شمار ہوں گے، اور شرعی ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے بقدر مذکورہ زمینوں کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔لمافي الشامية:’’قال في الهندية: ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة، ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط‘‘.(كتاب الهبة، 551/12، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:189/310