زمین بیچنے کے بعد مشتری کا پیسے ادا نہ کرنا

زمین بیچنے کے بعد مشتری کا پیسے ادا نہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ7 میں نے اپنے گاؤں کی زمین فروخت کرنے کا معاہدہ مورخہ 2023-10-30کو طے پایاجس کی رقم تقریباً 4کروڑروپے اور رقبہ تقریباً 10کنال تھا، جس شخص نے متعلقہ زمین خریدی اس شخص نے اس زمین کے تقریبا 10پلاٹ کاٹےاور 10مرلہ کے جس میں سے اس نے رقبہ تقریباً ایک کنال بطور بیعانہ رکھ لی تھی، رقم تقریباً 1کروڑ روپے کے عوض مجھ سے لکھوائی تھی اور اس کے علاوہ 07-05-2024 کو30لاکھ  روپے اور دیے۔
اب مسئلہ درپیش یہ ہے کہ جس شخص نے 10 کنال مجھ  سے زمین خریدی اس نے وعدہ کے مطابق بقایا رقم تقریباً 3کروڑ روپے 6 ماہ میں ادا کرنے تھے، لیکن وہ اپنے وعدہ کی پاسداری نہیں کر سکا اور مجھے بھی مشکل میں ڈال دیا کیونکہ میں نے بھی آگے کچھ معاہدے کیے  ہوئےتھے، لہذا اب وہ پورے طریقے سے اپنے معاہدے سے پیچھے ہٹ چکا ہے اور یہ کہ اس شخص نےکچھ زمین کے معاہدے بھی کیے، لیکن میں نے صرف (1) کنال زمین لکھ دی ہے، کیا اب جو اس نے اس کے علاوہ جو زمین دی ہے چونکہ وہ ہمارے نام ہے اور معاہدہ بھی ختم ہو چکا، تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شرعی طور پر میری رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت:میں نے کمیشن 7 لاکھ روپے دلال کو دیا اور مشتری نے وہ ایک کنال آگے 56لاکھ میں فروخت کردی، حالانکہ میں ایک کنال 40 لاکھ کی فروخت کی تھی۔

جواب

صورت مسئولہ میں سب سے پہلے خریدار کو چاہیے کہ اپنے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے بائع (بیچنے والے) والے کو اس کا حق ادا کرے، اور بیچنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ خریدار کو مہلت دے اگر وہ واقعی تنگدست ہو، اس لیے کہ احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے مقروض کو مہلت دینے کے بارے میں، لیکن اگر خریدار تنگدست نہیں ہے صرف ٹال مٹول کر رہا ہے تو زمین بیچنے والے کو چاہیے کہ اس پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ اس کو اس کے پیسے ادا کرے، اگر پھر بھی ادا نہیں کرتا تو باہمی رضامندی سے معاملے کو ختم کر دیں۔
لما في التنزيل العزيز:
«يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ».(سورة المائدة:1)
وفي التنزيل:
«وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ».(سورة البقرة:280)
وفي صحيح مسلم:
’’مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ‘‘.(كتاب الزهد، باب حديث جابر الطويل وقصة أبي اليسر:1299، رقم الحدیث:3006:دارالسلام الرياض)
وفي الهداية:
’’فإذا عزم البائع على ترك الخصومة ثم الفسخ.... ولأنه لما تعذر استيفاء الثمن من المشتري فات رضا البائع فيستبد بفسخه‘‘.(باب التحكيم:377/5: البشرى)
وفيه ايضاً:
’’إذ الحاجة مست إلى الانفساخ عند عدم النقد تحرزا عن المماطلة في الفسخ إلخ‘‘.(كتاب البيوع، باب خيار الشرط: 34/5: البشرى).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/274