کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کے پاس رہنے کے مکان کے علاوہ تین کوٹھیاں ہیں، جن میں سے ہر ایک کی قیمت ایک کروڑ سے اوپر ہے، کیا اس آدمی پر حج فرض ہے؟
وضاحت:مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کوٹھیوں کا کرایہ مالک کوملتا ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر کوٹھیوں کے مالک کے پاس یہی کرایہ ہی آمدنی کا ذریعہ ہو، اور وہ خرچ ہوجاتا ہو تو پھر حج فرض نہیں ہوگا، لیکن اگر اس شخص کے پاس اس کرایہ کے علاوہ بھی آمدنی کا ذریعہ ہو اور اس سے خرچہ پورا ہوجاتا ہو، تو پھر زمین کی مالیت کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر حج فرض ہوجائے گا۔لمافي تبيين الحقائق:
’’(فرض مرة على الفور بشرط حرية وبلوغ وعقل وصحة وقدرة زاد وراحلة فضلت عن مسكنه وعما لا بد منه ونفقة ذهابه وإيابه وعياله).
قوله: (وقدرة وزاد راحلة) أي حتى لو كان عادته سؤال الناس والمشي ولم يكن له زاد ولا راحلة لا يجب عليه......
قوله: (ونفقة ذهابه وإيابه)أي وقضاء ديونه اهـ غاية‘‘.(كتاب الحج:2/ 235،236: دارالكتب العلمية).
وفي بدائع الصنائع:
’’وأما تفسير الزاد والراحلة: فهو أن يملك من المال مقدار ما يبلغه إلى مكة، ذاهبا وجائيا، راكبا لا ماشيا، بنفقة وسط لا إسراف فيها ولا تقتير، فاضلا عن مسكنه وخادمه، وفرسه وسلاحه، وثيابه وأثاثه، ونفقة عياله وخدمه، وكسوتهم، وقضاء ديونه..... وذكر ابن شجاع؛ إنه إذا كانت له دار لا يسكنها ولا يؤاجرها، ومتاع لا يمتهنه، وعبد لا يستخدمه وجب عليه أن يبيعه ويحج به، وحرم عليه أخذ الزكاة إذا بلغ نصابا؛ لأنه إذا كان كذلك كان فاضلا عن حاجته كسائر الأموال، وكان مستطيعا فيلزمه فرض الحج‘‘.( كتاب الحج، فصل في شرائط فرضية:3/ 52،53: دارالكتب العلمية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/92