کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ نانی نے مدت رضاعت میں اپنے نواسے کو دودھ پلایا، اب نانی کی پوتیوں یا نواسیوں کے ساتھ دودھ پینے والے اس بچے کا نکاح درست ہے یا نہیں؟ مثلا: زید کی نانی کی تین بیٹیاں ہیں: فاطمہ، زینب، رقیہ۔ زید فاطمہ کی اولاد میں سے ہے، زید نے اپنی مدت رضاعت میں اپنی خالہ رقیہ کے ساتھ نانی کا دودھ پی لیا، یعنی زید بھی بچہ ہے اور اس کی خالہ رقیہ بھی بچی ہے، اب زید کا زینب کی بیٹیوں یا اپنے ماموں کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں زید کا زینب کی بیٹیوں اور اسی طرح اپنے ماموں کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کرنا از روئے شریعت مطہرہ نا جائز ہے؛ اس لیے کہ زید کا مدت رضاعت میں اپنی نانی کا دودھ پینے سے زید کی خالہ زینب اور رقیہ اس کی رضاعی بہنیں ہوئیں، اسی طرح اس کے ماموں اس کے رضاعی بھائی کہلائے، اور ان کی بیٹیاں زید کی رضاعی بھانجیاں اور بھتیجیاں ہوئیں، جن کے ساتھ زید کا نکاح نا جائز ہے۔لما في التنزيل العزيز:
﴿حرمت عليكم أمهتكم وبنتكم وأخوتكم﴾.(سورة النساء:23)
وفي صحيح البخاري:
عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عندها وأنها سمعت صوت رجل يستأذن في بيت حفصة، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله! هذا رجلٌ يستأذن في بيتك، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ((أراه فلاناً))-لعم حفصة من الرضاعة- فقالت عائشة: يا رسول الله لو كان فلان حياً -لعمها من الرضاعة- دخل علي؟فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم إن الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة.(كتاب النكاح، ص:912، دار السلام)
وفي التنوير مع الدر:
’’(فيحرم منه ) أي بسببه ( ما يحرم من النسب)‘‘.
وتحته في حاشية ابن عابدين:
’’قوله: (ما يحرم من النسب) معناه أن الحرمة بسبب الرضاع معتبرة بحرمة النسب‘‘.(كتاب الرضاع: 393/4، رشيدية)
وفي الهداية:
’’وكل صبيين اجتمعا على ثدي امرأة واحدة لم يجز لأحدهما أن يتزوج بالأخرى هذا هو الأصل لأن أمهما واحدة فهما أخ وأخت ولا يتزوج المرضعة أحد من ولد التي أرضعت لأنه أخوها ولا ولد ولدها لأنه ولد أخيها‘‘.(كتاب الرضاع: 101/2، دارالدقائق).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/277