کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رشوت دیکر نوکری، ملازمت خریدنا کیسا ہے؟ خواہ وہ ایجوکیشن کی پوسٹ ہو، یا پولیس یا چپراسی کی پوسٹ ہو، پیسے دیکر خریدنا کیسا ہے؟ آیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟
واضح رہے کہ رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، رشوت لینے اور دینے والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، اس لئے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا ضروری ہے، البتہ اگر کوئی جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے نہ ہورہا ہو، تو ایسی صورت میں صاحب حق کو چاہئے کہ اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیئے بغیر کسی طرح (مثلاً: قانونی کارروائی کرکے یا منت سماجت کرکے) اس کو حل کرلے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو اپنے جائز ثابت شدہ حق کی وصولی کے لئے مجبوراً رشوت دینے کی صورت میں رشوت دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، بشرطیکہ وہ اس نوکری کی اہلیت بھی رکھتا ہو، البتہ رشوت لینے والے کے لئے یہ جائز نہیں ہے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ رقم مالک کو واپس کرے۔لمافي مرقاة المفاتيح :
’’وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه بالواو قال لعن رسول الله الراشي والمرتشي أي معطي الرشوة… أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة، لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه‘‘.(کتاب الامارة والقضاء، الفصل الثاني، [رقم الحدیث:3753]322/7: رشیدیة)
وفي إعلاء السنن:
’’أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلابأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة، لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه‘‘.(كتاب القضاء، باب الرشوة: 64/15: دارالقران)
وفي الرد:
’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة: يعني في حق الدافع‘‘.(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع: 699/9: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/12