کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک نوجوان نے نکاح کے ڈھائی تین ماہ کے بعد اپنی بیوی کو اس کے رشتہ داروں کے یہاں جانے سے منع کیا اور منکوحہ کے اصرار کرنے کے بعد لڑکے نے کہا کہ: ’’اگر تو میری اجازت کے بغیر کہیں جائے گی، تو میری طرف سے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ اور پھر یہی بات لڑکے نے لڑکی کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے سامنے دھرائی، تو اس صورت میں شرع شریف کی رو سے کیا صورت واقع ہوئی ہے؟نیز اس بات کے بعد لڑکی کسی رشتہ دارکے گھر نہیں گئی۔
اس صورت میں تین طلاق شرط مذکور پر معلق ہوں گی، اگر اس فعل کو کرے گی تو تین طلاق اس کی زوجہ پر واقع ہوں گی اور بغیر حلالہ کے اس کی زوجہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔لما في درالمختار:
’’ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية الخ‘‘.(کتاب الطلاق، باب الصريح: 253/3، سعید)
وفي الھندیۃ:
’’وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق‘‘. (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما:1 /420 :دارالفكر).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/61