کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو بندوں نے ملکر پیسے اکٹھے کیے اور ایک شخص کو مضارب رکھا کہ وہ ان کے پیسوں پر کام کرے مضارب نے دونوں رب المال (جنہوں نے پیسے دیے) سے کہا کہ وہ اس کے پلاٹ میں ایک چھپرا بنوائے وہ اسی میں کام کرے گا (یعنی وہ چھپرا دکان ہوگا جس میں دودھ وغیرہ کا کاروبار ہوگا) تو دونوں رب المال نے چھپرا بنوایا مضارب کے کہنے پر، پھر مضارب نے کسی عذر کی وجہ سے مضاربت سے انکار کردیا، اب دونوں رب المال نے ملکر پیسے لگائے تھے ایک کہتا ہے دوسرے سے کہ میں تو اس مضارب کو جانتا تک نہیں میں نے تو آپ کے کہنے پر پیسے لگائے ہیں اب مجھے اپنے پیسے چایئے، دونوں شریک جو کاروبار میں رب المال بنے تھے ان میں پیسے تو دونوں کے تھے مگر ایک دوسرے کی جانب سے وکیل تھا دیکھ بھال کرنے کے لئے دوسرا دیکھ بھال نہیں کرتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ جو رقم 185000خرچہ ہوا اور دوسرا شریک اپنا حصہ طلب کررہا ہے یہ کس کے ذمے ہوگا، یا یہ کہ دونوں اس چھپرے میں شریک ہونگے؟
صورت مسئولہ میں دونوں رب المال نے چونکہ مضارب کی اجازت سے اس کے پلاٹ میں چھپرا بنوایا ہے، لہذا یہ چھپرا دونوں رب المال کی ملکیت شمار ہوگی دونوں اس میں اپنے حصے کے بقدر شریک ہونگے، کسی پر دوسرے کا ضمان لازم نہیں ہے۔لما في التنوير مع الدر:’’(وركنها) في شركة العين اختلاطهما... (وهي ضربان شركة ملك وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا)... (أو دينا).. (بإرث أو بيع أو غيرهما )‘‘.(كتاب الشركة، 459/6، رشيدية)وفي البدائع:’’وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم لأنه ملك لا يقابله عوض فلا يكون لازما كالملك الثابت بالهبة فكان للمعير أن يرجع في العارية سواء أطلق العارية أو وقت لها وقتا وعلى هذا إذا استعار من آخر أرضا ليبني عليها أو ليغرس فيها ثم بدا للمالك أن يخرجه فله ذلك‘‘.(كتاب العارية، فصل في صفة الحكم: 377/8، رشيدية)وفي دررالحكام في شرح غرر الأحكام:’’(صَحَّ الْإِعَارَةُ) أَيْ إعَارَةُ الْأَرْضِ (لِلْبِنَاءِ وَالْغَرْسِ)؛ لِأَنَّ مَنْفَعَتَهَا مَعْلُومَةٌ تُمْلَكُ بِالْإِجَارَةِ فَتُمْلَكُ بِالْإِعَارَةِ (وَلَهُ) أَيْ لِلْمُعِيرِ (أَنْ يَرْجِعَ)؛ لِأَنَّ الْإِعَارَةَ لَيْسَتْ بِلَازِمَةٍ (وَيُكَلَّفُ قَلْعُهُمَا) أَيْ الْبِنَاءِ وَالْغَرْسِ؛ لِأَنَّهُ شَاغِلٌ أَرْضَهُ بِمِلْكِهِ فَيُؤْمَرُ بِالتَّفْرِيغِ إلَّا إذَا شَاءَ أَنْ يَأْخُذَهُمَا بِقِيمَتِهِمَا إذَا اسْتَضَرَّتْ الْأَرْضُ بِالْقَلْعِ‘‘.(كتاب العارية، إعَارَةُ الْأَرْضِ لِلْبِنَاءِ وَالْغَرْسِ: 95/4، اولوالألباب).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/73