کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد مرحوم نے دو شادیاں کی، والد کی وفات کے بعد دوسری بیوی نے دوسری شادی کرلی، والد صاحب کے ترکے میں زرعی زمین اور ایک عدد مکان تھا، اس وقت والد صاحب کے جتنے وارثین تھے سب کو اپنا اپنا حصہ دیا گیا، سوائے ہمارے والدہ(دوسری زوجہ) کے، ان کو حصہ دینے سے انکار کیا گیا اور ان کا حصہ روکا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ اب دوسری زوجہ نے دوسری شادی کرلی ہے، لہٰذا اس کا کوئی حصہ نہیں اور اس مکان سے بھی بے دخل کیا گیا، وہ مکان ہمارے ایک سوتیلے بھائی نے قبضہ کرلیا ہے۔
براہ کرم ہمیں شرعی لحاظ سے بتلائیں کہ ہماری والدہ (دوسری زوجہ) اپنے سابقہ شوہر مرحوم کے ترکے میں حصہ دار ٹھہرتی ہیں یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں زوجہ اپنے سابقہ شوہر کے ترکہ میں دوسرے ورثاء کی طرح وارث اور حق دار ہیں، دوسرے نکاح سے حق میراث سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔لما في التنوير مع الدر:
’’(ولا يحرم ستة) من الورثة (بحال) البتة (الاب والام والابن والبنت) أي الابوان والولدان (والزوجان)‘‘.(كتاب الفرائض، مطلب في الكلام على حديث: ’’ليس للنساء من الولاء إلا ما اعتقن‘‘: 559/10: رشيدية)
وفي المحيط:
’’فنقول: مايستحق الإرث شيئان: النسب، و السبب،....والسبب ضربان: زوجة و ولاء‘‘.(كتاب الفرائض، الفصل الخامس: في بيان ما يستحق الإرث و يحرم عنه، 283/32: إدارة القرآن و العلوم الإسلامية)
وفي الإختيار لتعليل المختار:
’’وأما حجب الحرمان فنقول:(ستة لا يحجبون أصلا: الأب والابن والزوج والأم والبنت والزوجة) لأن فرضهم ثابت بكل حال لثبوته بدليل مقطوع به‘‘.(كتاب الفرائض، فصل الحجب: 115/5: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/279