کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دور حاضر کے بریلویوں اور غیر مقلدین کے پیچھےنماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بریلوی امام کی بدعات اگر حد کفر وشرک تک نہ پہنچی ہوں، بلکہ دیگر بدعات وخرافات کامرتکب ہو، توایسے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اگر اس کی بدعات حد شرک وکفر کو پہنچی ہوں تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔
غیر مقلد امام اگر ہمارے مذہب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز پڑھائیں تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے، لیکن اگر وہ ہمارے مذہب کی رعایت نہ کریں بلکہ وضو، غسل، پاکی وناپاکی میں امام اعظم رحمہ اللہ کی مخالفت کرتا ہو، مثلا: غسل جنابت میں کلی نہ کرنا، ناک میں پانی ڈالنے کوضروری نہ سمجھنا، منی کوپاک سمجھنا اور سوتی موزوں پر مسح کے جواز کاقائل ہونا، وغیرہ وغیرہ، تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر وہ اس طرح کے اختلافی مسائل میں تو ہمارے مذہب کی رعایت رکھتا ہو، لیکن حضرات ائمہ فقہاءکرام كثرالله سوادهم کوبرا بھلا کہتا ہو توایسے غیر مقلد کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس صورت میں اکیلے نماز پڑھنے سے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بہتر ہے، لیکن چونکہ معاملہ نماز جیسی اہم عبادت کا ہے اس لئے افضل یہ ہے کہ کسی متبع سنت صحیح العقیدہ امام کی اقتداء میں یہ فریضۃ اداء کیا جائے۔لما فی البحر:
’’(وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا)... وفي الفتاوى لو صلى خلف فاسق أو مبتدع ينال فضل الجماعة لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع... فالحاصل أنه يكره لهؤلاء التقدم ويكره الاقتداء بهم كراهة تنزيهه فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد وينبغي أن يكون محل كراهة الاقتداء بهم عند وجود غيرهم وإلا فلا كراهة كما لا يخفى
...وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لا تكون بدعته تكفره فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لا تجوز‘‘.(كتاب الصلاة، باب الإمامة: 607/1: رشيدية)
وفي البدائع:
’’وإمامة صاحب الهوى والبدعة مكروهة، نص عليه أبو يوسف في الأمالي فقال: أكره أن يكون الإمام صاحب هوى وبدعة؛ لأن الناس لا يرغبون في الصلاة خلفه، وهل تجوز الصلاة خلفه؟ قال بعض مشايخنا: إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة‘‘.(كتاب الصلاة، فصل في بيان من يصلح للإمامة: 688/1: رشيدية)
وفي الدرمع الرد:
’’(ويكره) تنزيها (إمامة عبد) ولو معتقا قهستاني عن الخلاصة ولعله لما قدمناه من تقدم الحر الأصلي إذ الكراهة تنزيهية فتنبه... (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول... (لا يكفر بها)... (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ... وفي النهر عن المحيط صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة‘‘.(كتاب الصلاة، باب الإمامة: 355/2: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:185/304