دوبیٹے اور بیٹیوں کے درمیان مکان کی تقسیم

دوبیٹے اور بیٹیوں کے درمیان مکان کی تقسیم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا انتقال 1994ء میں ہوا، ورثاء میں بیوہ، دو بیٹےاور بیٹیاں تھیں، ترکہ میں ایک مکان اور دونوں بیٹیوں کے لیے (6-6لاکھ) روپے بینک میں چھوڑے جو کہ بڑے بیٹے کے پاس تھے اور والد نے یہ کہا کہ مکان میرے بیٹوں کا ہے، جبکہ یہ رقم میری بیٹیوں کے لیے ہے، پھر والدہ کا بھی انتقال ہوا2020ء میں، ان کے پاس جو زیور تھا وہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی مرضی سےاپنےبچوں میں تقسیم کردیا تھا، مکان ابھی بھی موجود ہے، جبکہ جو رقم والد نے رکھی تھی (6-6لاکھ) روپے وہ بڑے بھائی نے پوری امانت داری سے بیٹیوں کی شادی میں خرچ کی اور اسی رقم (6-6لاکھ) سے سونے کا زیور بھی خریدا جوکہ 15-15تولہ تھا اور وہ بھی بہنوں کے حوالے شادی کے وقت ہی کردیا جوکہ ان کے پاس موجود ہے، برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں اس کی رہنمائی فرمائیں؟
وضاحت:والد صاحب نے ترکہ میں سے 12لاکھ روپے چھوڑے ہیں، جن سے بڑے بھائی نے بہنوں کی شادی کے وقت زیور خرید کر ان کے حوالے کردیے تھے، اس پر تمام بھائی راضی تھے۔

جواب

واضح رہے کہ تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے ان کے کفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان کے ادا نہ کیے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کیے جائیں، پھر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے، نیز اگر کسی شخص نے اپنے قریبی رشتہ دار کو بغیر کسی عوض (مفت) کوئی چیز دی اور انہوں نے اس پر قبضہ کرلیا، تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتا۔
صورت مسئولہ میں مرحوم کے مکان کے کل (48) حصے کیے جائیں، جن میں سے ہر بیٹے کو(16) حصے، ہر بیٹی کو(8) حصے دیے جائیں۔
فیصدی لحاظ سے ہر بیٹے کو(%33.33) ،ہر بیٹی کو (%16.67) دیے جائیں، اسی طرح آپ دونوں بھائیوں نے والد صاحب کے ترکہ میں سے 12لاکھ روپے سے اپنی رضامندی سے بہنوں کےلیے زیور خرید کر ان کو دیے ہیں جو تبرع و احسان تھا، جن میں سے آپ دونوں اپنے حصوں کے بقدر بھی زیورات میں سے نہیں لے سکتے۔
مزید تفصیلات کےلیے مندرجہ ذیل نقشہ ملاحظہ فرمائیں ۔

نمبر شمار

میت سے رشتہ

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا

14

33.33%

2

بیٹا

14

33.33%

3

بیٹی

7

16.67%

4

بیٹی

7

16.67%

وفي التنزيل الحكيم:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾. (سورة النساء، آية:11)
وفي التنویر مع الدر:
’’(ويمنع الرجوع فيها) حروف (دمع خزقه)....(والقاف القرابة)‘‘.(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة:587/8:رشيدية)
وفي السراجي :
’’تتعلق بتركة المیت حقوق اربعة مرتبة، الاول:یبدأ بتکفينه وتجهيزه من غیرتبذیر، ولاتقتیر ثم  تقضی دیونه من جمیع مابقی من ماله، ثم  تنفذ وصایاه من ثلث مابقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة واجماع الأمة‘‘.(المقدمة، ص:10-14:البشری).
وفيه أيضاً:
’’وأما للزوجات فحالتان: الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد و ولد الابن وإن سفل، والثمن مع الولد... وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث:النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبهن‘‘.(فصل في النساء،ص:32-33:البشرى).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی