دعا میں التزام اور عدم التزام کا صحیح مطلب

دعا میں التزام اور عدم التزام کا صحیح مطلب

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دعامیں التزام اور عدم التزام کا صحیح مطلب کیا ہے، کیا جو موجودہ  دور میں تمام مساجد میں اس کا اہتمام تو ہوتا ہے لیکن اگر کوئی دعا کے لئے نہ بیٹھے بلکہ اٹھ کر چلا جائے، تو اسکو بھی کوئی ملامت نہیں کرتا اس صورت کو بھی التزام کہا جاسکتا ہے؟

جواب

التزام کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی دعا کو فرض و واجب کی طرح لازم سمجھا جائے، اور شریک نہ ہونے والوں پر نکیر کی جائے۔
عدم التزام کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی دعا کو لازم و ضروری اعتقاد نہ کیا جائے بلکہ اگر کوئی بغیر دعا کے اٹھ کر چلا جائے، تو وہ قابل ملامت نہ ہو۔
لما في إعلاء السنن:
’’عن معاذ بن جبل أن النبي ﷺ قال له: یا معاذ! إني لأحبک فلا تدع دبر کل صلاة أن تقول: اللهم أعني علی ذکرک الخ.... وحدیث ذید بن أرقم سمعته ﷺ: یدعوني في دبر الصلاة: اللهم ربنا ورب کل شيئ الخ... أخرجه النسائي وصححه ابن حبان وغیر ذلک.
قلت...: فثبت أن الدعاء مستحب بعد کل صلاة مکتوبة متصلا بها برفع الیدین، کما هو شائع في دیارنا ودیار المسلمین قاطبة‘‘.(بیان ما یقرأ إذا فرغ من الصلاة: 204/3: إدارةالقرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی