دادا کے انتقال کے بعد یتیم پوتے کا میراث میں دعویٰ کرنا

دادا کے انتقال کے بعد یتیم پوتے کا میراث میں دعویٰ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے دادا صاحب کے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں، موصوف نے اپنی ارضیات کی تقسیم اپنی حیات میں ایک اقرار نامہ کے ٍذریعے سے کی ہے، درآں حالکہ چار بیٹیاں اور تینوں بیٹے زندہ تھے، اس طور پر تقسیم کی کہ میری زمینوں میں سے موسوم (ژلو)میں ایک حصہ میرے چاروں دختران کا ہوگا، باقی جملہ ارضیات میرے تین بیٹوں کے درمیان مشترکہ ہوں گی،علاوہ از ایں میرے پسران پابند ہونگے تاحیات مجھے باقاعدگی سے خرچہ فراہم کریں گے اور ہر حال میں پسران مقر کی خدمت کے پابند ہوں گے، خلاصہ کلام کچھ عرصہ بعد مقر کی تینوں بیٹوں میں سے ایک بیٹا وہ فوت ہوجاتا ہے، مقر خود حیات ہے اورمرحوم نے پیچھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کوچھوڑا ہے، چند سالوں بعد ہمارے دادا صاحب، یعنی مقرعملا بھی انہیں اراضی کو جنہیں اقرار نامے میں لکھوایا تھا، دونو ں بیٹے اوریتیم پوتے کے درمیان بعینہ اقرارنامے کے مطابق تقسیم کرتے ہیں، تاکہ یتیم پوتا اپنا حق حاصل کر سکے، پھر ایک طویل مدت کے بعد ہمارے دادا صاحب وفات پاگئے، اب بقیہ کچھ غیر آباد بنجر زمینیں رہتی ہیں، وہ مقر کےاپنے بھائیوں اور مقر کے درمیان مشترک ہیں، تقسیم نہیں ہوئی ہے، اب بقیہ دونوں بیٹے یہ زمینیں اپنے چچازاد بھائیوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں، کیا یتیم پوتے کو ان اراضی مشترکہ میں حصہ ملتا ہے کہ نہیں جوکہ دادا صاحب کے حیات میں غیر آباد اور مشترک تھے؟ اب دادا صاحب یعنی مقر کی وفات کے بعد تقسیم ہوتے ہیں، دادا صاحب کے بھائیوں، بھتیجوں اور داداصاحب کے دو بیٹوں کے درمیان، یتیم پوتا یہ دعوی کرتا ہے کہ میں بھی ان اراضی مشترکہ میں تمہارے برابر کا شریک ہوں، حالانکہ دادا صاحب نے اپنی زندگی میں عملا صرف آباد زمینوں کو بیٹوں کے حوالے کیا ہے، غیرآباد اس وقت دادا صاحب کے بھائیوں کے درمیان مشترک تھی، اب کیا یتیم پوتے کا یہ دعوی کرنا درست ہے کہ نہیں؟  قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کے دادا کا اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا میراث نہیں، بلکہ ہدیہ ہےاور ہدیہ اپنی تمام اولاد کو برابر دینا چاہیے، تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو اور وہ غیر آباد بنجر زمینیں جن کو آپ کے دادا اپنی زندگی میں تقسیم نہ کرسکے آپ کے دادا کی وفات کے بعد ان زمینوں کو شرعی اعتبار سے وراثت کے اصول کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور شرعا نرینہ اولاد کے زندہ ہوتے ہوئے باقی اولاد(پوتا، پوتی وغیرہ) کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا، اس لیے صورت مسئولہ میں آپ کا ان اراضی مشترکہ میں حصہ کا دعوی کرنا شرعا  درست نہیں ہے۔
لما في صحيح البخاري:
وقال النبي صلى الله عليه و سلم:’’اعدلوا بين أولادكم في العطية‘‘.(كتاب الهبة ، باب الهبة للولد،ص:418: دارالسلام)
وفي الهندية:
’’ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك ،لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى: أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى: أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار، سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن، وعليه الفتوى‘‘.(كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير: 416/4: دارالفكر)
وفي الفتاوى السرجية :
’’ ثم قسمة الباقي بين ورثته على فرائض الله تعالى ، ثم العصبات الأقرب فالأقرب اخرهم مولى العتاقة‘‘.(كتاب الفرائص، باب في استحقاق الميراث وعدمه، ص:561: زمزم)
وفي السراجي:
’’ولايرثن مع الصلبيتين إلا أن يكون بحذائهن أو أسفل منهن غلام فيعصبهن، والباقي بينهم للذطر مثل حظ اللانثيين، ويسقطن بالابن‘‘.(أحوال بنات الابن، ص:34: بشرى).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/33