خلع کا شرعی طریقہ

خلع کا شرعی طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خلع کا شرعی طریقہ کیا ہے؟تفصیل سے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر شوہر اور بیوی کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو اور شوہر طلاق بھی نہ دے رہا ہو،تو عورت کے لیے جائز ہےکہ اپنا مہر شوہر کو واپس کرے،یا معاف کرے،یا کچھ مال دے کر اس کےعوض میں خلع حاصل کرے،اگر شوہر اس کو قبول کرے اور یہ کہےکہ میں بعوض مہر خلع پر راضی ہوں،تو اس سے طلا ق بائن واقع ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ خلع میں شوہر کی رضا مندی ضروری ہے،شوہر کو اس بات پر راضی کیا جائے،ورنہ شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع درست نہیں۔
لما في التنزیل:
﴿فإن خفتم ألا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیهما فیماافتدت به﴾.(البقرہ، 229).
وفي الکتاب الاختیار:
’’(وھوأن تفتدي المرأة نفسھابمال لخلعھا به، فإذا فعلا لزمھا المال ووقعت تطلیقة بائنة)......وإنما تقع تطلیقة بائنة؛ لقوله علیه الصلاةوالسلام: «الخلع تطلیقة بائنة»؛ لأنه کنایة فیقع به بائنا......وتخرج من نکاحه‘‘.(کتاب الطلاق، باب الخلع: 192/2: رشیدية کوئته).
وفي الھدایة:
’’(وإذاتشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدوداللہ فلا بأس بأن تفتدي نفسھا منه بمال یخلعھا به) ...... (فإذافعلا ذلک وقع بالخلع تطلیقة بائنة ولزمھا المال)؛ لقوله علی الصلاة السلام: «الخلع تطلیقة بائنة»، ولأنه یحتمل الطلاق حتی صار من الکنایات، والواقع بالکنایات بائن‘‘.(کتاب الطلاق، باب الخلع:202/2: دارالدقاق).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/341